|
ویب ڈیسک — فرانس کی عدالت نے جزیل پیلی کوٹ ریپ کیس میں 51 افراد کو مجرم قرار دیتے ہوئے سزا سنا دی ہے۔
جمعرات کو اپنے فیصلے میں فرانس کی ایک عدالت کے پانچ رکنی جج پینل نے جزیل پیلی کوٹ کے سابق شوہر اور مقدمے کے مرکزی ملزم 72 سالہ ڈومینیک پیلی کوٹ کو نشہ آور اشیا دے کر ریپ کرنے اور بے ہوشی کی حالت میں دیگر مردوں کو ریپ کی اجازت دینے پر 20 سال قید کی سزا سنائی۔
جزیل پیلی کوٹ ماس ریپ کیس کا فیصلہ تین ماہ کے ٹرائل کے بعد سامنے آیا ہے۔ اس کیس نے نہ صرف فرانس بلکہ دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
کرمنل کورٹ کے مرکزی جج راجر اراتا نے سزا سناتے ہوئے کہا کہ ڈومینیک پیلی کوٹ آپ جزیل کے ریپ کے مجرم قرار پائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پیلی کوٹ اس وقت تک پرول کے اہل نہیں ہوں گے جب تک وہ دو تہائی سزا نہیں کاٹ لیتے۔
ڈومینیک پیلی کوٹ نے اعتراف کیا کہ انہوں نے برسوں تک اپنی بیوی کو نشہ آور اشیا دیں تاکہ وہ اور ان کی جانب سے آن لائن بھرتی کیے گئے اجنبی افراد زیادتی کرسکیں۔
ڈومینیک کو سنائی گئی سزا فرانسیسی قانون کے تحت سب سے زیادہ ممکنہ سزا ہے۔ انہیں تمام الزامات کا مجرم قرار دیا گیا۔
عدالت نے دیگر 50 شریک مجرمان کو تین سے 15 سال کے درمیان قید کی سزائیں سنائی ہیں۔ پراسیکیوشن کی جانب سے دیگر ملزمان کے لیے چار سے 18 سال کی سزا کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
عدالت نے مجموعی طور پر 47 ملزمان کو ریپ، دو کو ریپ کی کوشش اور دو کو جنسی حملے کا مجرم قرار دیا۔ کئی ملزمان کی جانب سے الزامات سے انکار کیا گیا۔
SEE ALSO: فرانس میں اسلام پر تنقیدی ویڈیو بنانے والی لڑکی کو آن لائن ہراساں کرنے کے الزام میں 11 افراد کو سزافرانس کے شہر اوینیون کی عدالت میں جب ملزمان کو سزا سنائی جا رہی تھی تو جزیل پیلی کوٹ ایک طرف بیٹھی ہوئی تھیں اور جیسے جیسے فیصلے سنایا جا رہا تھا وہ اپنا سر ہلا رہی تھیں۔
کیس کا فیصلہ سنائے جانے کے موقع پر جزیل کے تین بچے ڈیوڈ، کیرولائن، فلورین بھی والدہ کے ہمراہ موجود تھے۔
بچوں نے بھی اپنے والے کے خلاف آواز اٹھائی تھی اور ان کی معافی کی درخواست کو مسترد کردیا تھا۔
معاملہ سامنے کب آیا؟
ڈومینیک پیلی کوٹ کو سال 2020 میں پولیس نے اس وقت پکڑا تھا جب وہ ایک سپر مارکیٹ میں خواتین کی اسکرٹس کی تصاویر لینے کی کوشش کر رہے تھے۔
بعد ازاں پولیس کو ڈومینیک کی کمپیوٹر ڈرائیو سے اہلیہ کے ساتھ برسوں کی بدسلوکی کی امیجز کی ایک لائبریری ملی تھی جس میں 20 ہزار سے زیادہ تصاویر اور ویڈیوز تھیں جنہیں 'ابیوز'، 'ہر ریپسٹ'، 'نائٹ الون' اور دیگر ٹائٹل سے فولڈرز میں رکھا گیا تھا۔
ان شواہد کی روشنی میں پولیس دیگر ملزمان تک پہنچی تھی۔ تفتیش کاروں کا خیال تھا کہ ویڈیوز میں 72 مرد ایسے ہیں جنہوں نے کئی برسوں کے دوران جزیل کو ان کے گھر پر ریپ اور ابیوز کیا لیکن پولیس سب کی شناخت نہیں کر سکی تھی۔
ڈومینیک پیلی کوٹ نے یہ تسلیم کیا تھا کہ وہ اپنی اہلیہ کے کھانے اور کافی میں ایسی مؤثر زود اثر اشیا ڈالتے تھے جس کی وجہ سے وہ کئی گھنٹوں تک بے ہوش رہتی تھیں۔
اس کیس کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ جزیل پیلی کوٹ نے ریپ کا شکار ہونے کے باوجود منظر عام پر آگئی تھیں اور معاملے کے اوپن ٹرائل کا مطالبہ کیا تھا۔
جزیل نے کہا تھا کہ ریپ کا شکار ہونا باعثِ شرم نہیں بلکہ ریپسٹ کو شرمندہ ہونا چاہیے۔ جزیل کے اس فیصلے نے انہیں حقوقِ نسواں کا علم بردار بنا دیا تھا۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں اداروں 'ایسوسی ایٹڈ پریس'، 'اے ایف پی' اور 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔