سال 2019 کے آغاز پر پاکستان کی دو یونیورسٹیوں میں پہلی بار کاروباری شعبے کے بین الاقوامی ماہرین کی مدد سے تخلیقی، اختراعی اور سوشل انٹرپرائز کے شعبوں میں تربیتی پروگرام شروع کیے گئے ہیں۔ گلوبل انکیوبیشن نامی یہ پروگرام جو زیادہ تر طالبات پر مرکوز ہوں گے، سینٹر فار گلوبل انوویٹرز، سی جی آئی پاکستان اور برٹش کونسل کے پروگرام ڈائس کے تعاون سے ترتیب دیئے گئے ہیں۔
سینٹر فار گلوبل انوویٹرز پاکستان کے شریک بانی اور سی ای او عمران جتالا نے، جو اس پروگرام کی قیادت کر رہے ہیں، اس تربیتی پروگرام کے بارے میں وائس آف امریکہ سے بات کی۔
انہوں نے بتایا کہ سان فرانسسکو، بوسٹن، برلن، دبئی اور اسلام آباد سے بزنس کے شعبے کے ماہرین پر مشتمل ایک گلوبل پینل، لاہور کالج ویمن یونیورسٹی اور نمل یونیورسٹی اسلام آباد میں طالب علموں خصوصاً طالبات کو کاروبار کرنے کی تربیت دے گا۔ اس کورس کا دورانیہ ایک سال ہو گا۔
عمران جتالا نے کہا کہ یہ پروگرام سوشل انٹرپرینیورشپ اور کرییٹیو یعنی تخلیقی اور اختراعی انٹرپرینیورشپ پر مرکوز ہو گا۔ سماجی خدمت کے جذبے سے شروع کیے گئے کاروبار یا سوشل انٹری پرینیورشپ صاف پانی، توانائی، تعلیم اور خوراک وغیرہ کے شعبوں پر مشتمل ہو گی، جب کہ اختراعی اور تخلیقی قسم کے کاروبار، مثلاً فائن آرٹس، انٹیرئیر ڈیزاننگ اور پینٹنگ وغیرہ کے شعبوں میں کاروبار کی تربیت فراہم کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ اس تربیتی پروگرام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ یونیورسٹی کے طالب علموں خصوصاً طالبات کو تعلیم کے بعد ملازمت کی بجائے کاروبار کی طرف مائل کیا جا سکے۔
عمران جتالا نے بتایا کہ گلوبل انکیوبیشن کے اس پروگرام کے تحت طالب علموں کے لیے نئے کاروبار شروع کرنے کی تربیت کے 20 پراجیکٹس پر کام ہو گا، جن کی قیادت طالبات کریں گی۔ انہیں چھ ماہ کے لیے کاروبار کرنے کی جگہ فراہم کی جائے گی، جب کہ پروگرام کے دوران اور پروگرام کے بعد انہیں انڈسٹری کے لوگوں سے منسلک کیا جائے گا۔
پروگرام کے بارے میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے لاہور کالج فار ومن یونیورسٹی کی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر فرخندہ منظور نے کہا کہ ان کی یونیورسٹی میں حکومت پنجاب کی جانب سے پہلے ہی ای روزگار کے نام سے ایک شعبہ قائم ہے، جس کے تحت کالج کی طالبات اور اساتذہ کے ساتھ ساتھ باہر سے بھی خواتین کو کمپیوٹر کے مختلف ہنر سکھائے جاتے ہیں جن کی مدد سے وہ گھر میں بھی اپنا روزگار کما سکتی ہیں۔
ڈاکٹر فرخندہ کا کہنا تھا کہ ای روزگار کی وجہ سے انہیں گلوبل انکیوبیشن پروگرام شروع کرنے میں آسانی ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ پروگرام کامیاب رہا تو وہ اسی قسم کے دوسرے پراجیکٹس کے لیے بھی کام کریں گی اور ان کی کوشش ہوگی کہ آئندہ چند برسوں میں اس یونیورسٹی سے گریجوایشن کرنے والی طالبات میں سے کم از کم 30 سے 35 فیصد ملازمت کی تلاش کی بجائے اپنے بزنس خود شروع کریں اور وہ اس یونیورسٹی کو ایک انٹری پرینیورل یونیورسٹی کی شکل میں ڈھال سکیں۔
نمل یونیورسٹی میں اس پروگرام کے انچارج گلفام بھگور نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ نمل یونیورسٹی میں پہلے سے ہی بزنس کا ایک بہت بڑا تربیتی سینٹر موجود ہے، اس لیے اس پروگرام پر عمل درآمد میں انہیں کوئی دشواری پیش نہیں آ رہی۔
انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ جلد ہی نمل میں یہ پروگرام کامیابی سے شروع ہو جائے گا اور تربیتی پروگرام سے استفادے کے بعد جب طالبات عملی شعبے میں قدم رکھیں گی تو بہت سے شعبوں میں کامیابی سے اپنا کاروبار کر سکیں گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت حکومت میں بہت سی خواتین پارلیمنٹ کی رکن ہیں اور یا تو خود کاروباری شعبے سے تعلق رکھتی ہیں یا اس کی اہمیت سے اچھی طرح واقف ہیں۔ جب کہ عمران خان بھی چھوٹے کاروباروں کے فروغ کی بات کرتے ہیں، اس لیے وہ امید کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے دور میں چھوٹے کاروبار، خاص طور پر خواتین کے لیے چھوٹے کاروباروں کے مواقع بڑھیں گے۔
گلوبل انو ویٹرز کے کو فاؤنڈر اور سی ای او عمران جتالا، نے کہا کہ نمل اور لاہور ویمن یونیورسٹی میں بزنس کے گلوبل تربیتی پروگرام سے پاکستان میں تخلیقی اور سوشل انٹرپرنیورشپ کے فروغ میں مدد ملے گی اور پاکستان اور دوسرے ترقی یافتہ ملکوں کے درمیان ان شعبوں میں موجود خلا پر کرنے میں مدد ملے گی۔