عالمی ادارہ ِتوانائی کے مطابق دنیا بھر میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج 1.4٪ اضافے کے ساتھ 31.6 بلین ٹن تک پہنچ چکا ہے۔
عالمی ادارہ ِتوانائی کا کہنا ہے کہ سال 2012ء میں عالمی سطح پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کا سب سے زیادہ اخراج نوٹ کیا گیا اور چین ان ممالک میں سر ِ فہرست رہا جہاں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج سب سے زیادہ تھا۔ چین نے اس معاملے میں امریکہ اور یورپ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
عالمی ادارہ ِتوانائی کے مطابق دنیا بھر میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج 1.4٪ اضافے کے ساتھ 31.6 بلین ٹن تک پہنچ چکا ہے۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں چین سب سے آگے ہے جہاں اضافی تین سو ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ فضاء میں خارج ہوتی ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ شرح چین میں ہی گذشتہ ایک عشرے میں سب سے کم ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ چین توانائی کے متبادل اور دوبارہ قابل ِ استعمال ذرائع پر زور دے رہا ہے۔
امریکہ میں بھی توانائی کے لیے کوئلے کی بجائے گیس کے استعمال سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں دو سو ملین ٹن کمی لانا ممکن ہوسکا۔
گو کہ گذشتہ برس یورپ میں توانائی کے حصول کے لیے کوئلے کے استعمال میں اضافہ دیکھا گیا اس کے باوجود یورپ میں فضاء میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں پچاس ملین ٹن تک کمی نوٹ کی گئی ہے۔ جس کی وجہ یورپی ممالک میں دوبارہ قابل ِاستعمال توانائی کے ذرائع اور صنعتی کارخانوں میں ’ایمیشن کیپس‘ کا استعمال ہے۔
جاپان میں کاربن کے اخراج میں ستر ملین ٹن اضافہ ہوا۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس صدی میں عالمی سطح پر اوسطاً درجہ ِ حرارت میں دو ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ اضافہ نہیں ہونا چاہیئے ورنہ عالمی سطح پر موسم بدل جائیں گے، فصلیں تباہ ہوجائیں گی اور گلیشئیرز پگھلنا شروع ہو جائیں گے۔
لیکن اس سب کے لیے ضروری ہے کہ 2020ء تک فضاء میں عالمی سطح پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو مجموعی طور پر 44 بلین ٹن کی سطح تک لایا جائے۔
عالمی ادارہ ِتوانائی کے مطابق دنیا بھر میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج 1.4٪ اضافے کے ساتھ 31.6 بلین ٹن تک پہنچ چکا ہے۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں چین سب سے آگے ہے جہاں اضافی تین سو ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ فضاء میں خارج ہوتی ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ شرح چین میں ہی گذشتہ ایک عشرے میں سب سے کم ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ چین توانائی کے متبادل اور دوبارہ قابل ِ استعمال ذرائع پر زور دے رہا ہے۔
امریکہ میں بھی توانائی کے لیے کوئلے کی بجائے گیس کے استعمال سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں دو سو ملین ٹن کمی لانا ممکن ہوسکا۔
گو کہ گذشتہ برس یورپ میں توانائی کے حصول کے لیے کوئلے کے استعمال میں اضافہ دیکھا گیا اس کے باوجود یورپ میں فضاء میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں پچاس ملین ٹن تک کمی نوٹ کی گئی ہے۔ جس کی وجہ یورپی ممالک میں دوبارہ قابل ِاستعمال توانائی کے ذرائع اور صنعتی کارخانوں میں ’ایمیشن کیپس‘ کا استعمال ہے۔
جاپان میں کاربن کے اخراج میں ستر ملین ٹن اضافہ ہوا۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس صدی میں عالمی سطح پر اوسطاً درجہ ِ حرارت میں دو ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ اضافہ نہیں ہونا چاہیئے ورنہ عالمی سطح پر موسم بدل جائیں گے، فصلیں تباہ ہوجائیں گی اور گلیشئیرز پگھلنا شروع ہو جائیں گے۔
لیکن اس سب کے لیے ضروری ہے کہ 2020ء تک فضاء میں عالمی سطح پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو مجموعی طور پر 44 بلین ٹن کی سطح تک لایا جائے۔