دنیا بھر میں غذائی قلت اور بھوک کے شکار 117 ممالک کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان 94 ویں نمبر پر آگیا ہے جبکہ بھارت رینکنگ میں تنزلی کے بعد وہ 102 پر پہنچ گیا ہے۔
غیر سرکاری جرمن تنظیم 'ورلڈ ہنگر ہیلپ' کی طرف سے جاری کردہ 'ورلڈ ہنگر انڈیکس-2019' کے مطابق پاکستان 28.5 پوائنٹس کے ساتھ غذائی قلت کے شکار ممالک میں شامل ہے۔
انڈیکس کے مطابق پاکستان میں صورت حال ماضی کی نسبت بہتر ہے۔ اس کے باوجود پاکستان میں بھوک کے مسئلے کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان میں غذائی قلت کی وجوہات
انڈیکس کے مطابق سال 2007 سے 2010 کے درمیان پاکستان میں آنے والے طوفان اور سیلاب زرعی شعبے کو شدید متاثر کرنے کی وجہ بنے۔
قدرتی آفات کے نتیجے میں متاثر ہونے والے افراد کی بڑی تعداد زراعت کے شعبے سے منسلک تھی۔ جن میں سے بیشتر اپنے اثاثے فروخت کر کے نقل مکانی کرگئے۔
نقل مکانی کا اثر نہ صرف اُن کے اپنے حالات زندگی پر پڑا یعنی غربت کے باعث ناصرف اُن کی خوراک میں کمی واقع ہوئی بلکہ ملک بھر میں خوراک کی ترسیل میں بھی کمی دیکھی گئی۔
موسمیاتی تبدیلی اور خوراک کی قلت کا تعلق
'ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر' میں فوڈ پروگرام اور پائیدار زراعت کے مینیجر مسعود خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دُنیا بھر کی 80 فی صد غذائی ضروریات کا انحصار زراعت پر ہے۔ ایک عالمی رپورٹ کے مطابق زراعت براہ راست موسم کی تبدیلی سے متاثر ہوتی ہے۔
مسعود خان کا کہنا تھا کہ بارش میں کمی یا زیادتی، بے موسم آندھی یا طوفان، سیلاب اور شدید گرمی بھی فصلوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
ان کے بقول زمین کی زرخیزی میں کمی سے زرعی اجناس کی پیداوار میں فرق آئے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ طلب اور رسد میں عدم توازن، مہنگائی کا سبب بنتا ہے۔ جس کی وجہ سے جو اشیاء خریدنے کی سکت نہیں رکھ سکتا، وہ یا تو اپنے کھانے کے اوقات کار کم کرے گا یا طاقت بخش غذا سے محروم ہو جائے گا۔
مسعود خان کہتے ہیں کہ 'ڈبلیو ڈبلیو ایف' زراعت کے مختلف پروگراموں کے تحت کاشت کاروں کو یہ تربیت دے رہے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے جدید طریقے اپنائیں۔
ان کے بقول بیج کی اقسام اور مختلف فصلوں کی مخصوص موسم میں کاشت کاری کے بجائے سیزن کو بدلنے کا طریقہ اپنایا جانا چاہیے۔
مسعود خان کا کہنا ہے کہ اس کے ساتھ کاشت کاروں کو یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ وہ آمدنی کے دوسرے ذریعے، جیسے کچن گارڈننگ، مرغیوں کو پالنا وغیرہ اس جانب بھی آئیں تاکہ وہ اپنی روزمرہ ضروریات ہی پوری کر سکیں۔
غذائی قلت کے خاتمے کے لیے جاری منصوبے
متوازن خوراک کا نہ ملنا پاکستانی بچوں کو غذائی قلت کا شکار بنا رہا ہے۔
ماہرین صحت کے مطابق پروٹین، آئرن اور وٹامن کا صحیح مقدار میں جسم کو نہ ملنا اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔
صوبہ پنجاب میں اس مسئلے سے ہنگامی صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب 2011 کے 'نیشنل نیوٹریشنل سروے' میں 33.7 فیصد بچوں میں غذائی کمی اور 17.5 فیصد بچوں کے قد میں اضافہ نہ ہونے کا مسئلہ سامنے آیا۔
صوبائی سطح پر 'انٹیگریٹیڈ ری پروڈکٹو زچہ بچہ اور نیوٹریشن پروگرام' نامی ادارہ وجود میں آیا۔ جس کا ایک مقصد غذائی کمی کا خاتمہ ہے۔
غذائی قلت کے شکار بچوں کو ڈھونڈنے کی ذمہ داری محکمہ صحت نے لیڈی ہیلتھ ورکرز کو سونپی جو اپنے اپنے علاقوں میں موجود ہر بچے کا اندراج اور معائنہ کرتی ہیں۔
'ڈبلیو ایچ او' کے گروتھ چارٹ کے مطابق بچوں کی عمر کے مطابق قد اور وزن دیکھ کر بتایا جاتا ہے کہ بچہ غذائی قلت کا شکار ہے یا نہیں۔ اسی معیار کو اس وقت تمام صوبوں کے ادارے استعمال کر رہے ہیں اور اسی چارٹ کے مطابق کمیونٹی اسٹاف بچوں کا وزن اور قد معلوم کرتی ہیں۔
37 فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار
وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز کی جانب سے جون 2019 میں جاری کردہ نیشنل نیوٹریشن سروے 2018 کے مطابق پاکستان میں ہر 10 میں سے 4 بچے غذائی کمی کا شکار ہیں۔
سروے کے مطابق غزائی قلت کے شکار بچوں میں لڑکوں کی شرح 40.9 فی صد اور لڑکیوں کی تعداد 39.4 فی صد ہے۔
سروے میں مزید بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ہر تیسرا بچہ وزن کی کمی کا بھی شکار ہے جبکہ 9.5 فی صد بچوں کا وزن زیادہ ہے۔
سروے کے مطابق 7 سال کے دوران وزن کی زیادتی کا شکار بچوں کی تعداد دگنی ہوئی ہے۔
2018 میں کیے گئے سروے کے مطابق 37 فی صد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔
اس حوالے سے بلوچستان اور فاٹا کے علاقے زیادہ متاثر ہیں۔
بلوچستان کی 50 فی صد آبادی جب کہ فاٹا میں 54.6 فی صد آبادی کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔
دُنیا بھر میں بھوک کی صورت حال
غذائی قلت، بچوں کی اموات اور نشوونما کی بنیاد پر کیے گئے بھوک کے عالمی سروے میں بھارت 102 نمبر پر ہے۔ جنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک میں بھی صورت حال بہتر نہیں ہے۔
66ویں نمبر پر سری لنکا، 73ویں نمبر پر نیپال، 88ویں نمبر پر بنگلہ دیش اور 108ویں نمبر پر افغانستان ہے۔
رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا کے درجہ بندی میں پیچھے ہونے کی وجہ بچوں کو خوراک کی کم دستیابی ہے۔