جنوری میں تیونس میں شروع ہونے والے مظاہروں کا اختتام صدر زین العابدین بن علی کے استعفے پر ہوا۔ پھر مصر میں اسی طرح کی تحریک کا آغاز ہوا اور صدر حسنی مبارک کو اقتدار سے الگ ہونا پڑا۔
اور جیسے جیسے اس تحریک نے زور پکڑا اسے عرب سپرنگ یا ’عرب دنیا میں بہار‘ کا نام دیا گیا۔ لندن سکول آف اکنامکس میں گلوبل گورنس کی پروفیسر میری کالڈورسرد جنگ کے زمانے میں یورپی ملک ہنگری میں حکومت ٕمخالف تحریک میں شامل رہی تھیں ۔
وہ کہتی ہیں جکہ لوگوں نے یہ فرض کر لیا تھا کہ مشرق وسطیٰ دوسروں سے مختلف ہے اور اس کی وجہ مذہب کا مختلف ہونا بتایا گیا۔ یعنی ’ یہ ہماری طرح نہیں‘ ہیں ۔ اور اس مفروضے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو بھی تقویت ملی۔میرے خیال میں عرب سپرنگ کی سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ اس تحریک نے اس مفروضے کو مسترد کر دیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عرب بھی اتنے ہی جمہوریت پسند ہیں جتنے کہ دیگر ملکوں کے عوام۔
http://www.youtube.com/embed/C2WyTUiFcC8
جس وقت عرب دنیا میں عوامی تحریکیں زور پکڑ رہی تھیں اسی دوران یورپ میں بھی احتجاج شروع ہوئے۔ یونان کے دارالحکومت ایتھنز میں ہزاروں ٕمظاہرین نے حکومت کی معاشی اور اقتصادی اصلاحات کے خلاف احتجاج کیا۔
برطانیہ میں لوگوں نے حکومت کی جانب سے اخراجات میں کمی کے اقدامات کے خلاف احتجاج کیا۔ اسی طرح کے کچھ ٕمظاہرے یورپ کے کچھ اور حصوں میں بھی دیکھے گئے ۔اسپین میں مظاہرین نے مصر کے تحریرسکوائر کی تقلید کرتے ہوئے میڈرڈ کے مرکز میں ایک چوراہے پرجمع ہو کر احتجاج کیا۔برطانیہ میں ٹریڈ یونین کانگریس کے عہدیدار اوون ٹوڈورکہتے ہیں کہ تمام مظاہروں کی بنیادی وجوہات مشترک ہیں۔
ان کا کہناتھا کہ ہم یورپ میں جمہوری ممالک کی بات کر رہے ہیں اور شمالی افریقہ میں مطلق العنان حکمرانوں کی۔ مگر دونوں خطوں میں ہونے والی تحریکوں کی کئی وجوہات مشترک ہیں۔جن میں سے ایک معاشی بحران ہے۔
ٹوڈورکہتے ہیں کہ مصر میں ٕمظاہروں کے محرکات میں یونیینز کا اہم کردار تھا جن کی وجہ سے حسنی مبارک کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ یورپ میں لیبر یونینیں عرب ممالک میں یونینوں کی حمایت میں اضافہ کر رہی ہیں ۔
کچھ تجزیہ کار وں کا خیال ہے کہ لیبیا اور شام میں تبدیلی کی تحریک رک گئی ہے۔ مگرپروفیسر کالڈورکہتی ہیں کہ ان تحریکوں نے عرب دنیا کا سیاسی منظر نامہ یقینابدل دیا ہے۔
ان کا کہناتھا کہ 1989ءمیں سرد جنگ کا خاتمہ ہوا۔ میرے خیال میں2011ءمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ پس منظر میں چلی گئی ہے۔ القاعدہ غیر اہم ہوگئی ہے۔ اسامہ بن لادن کی جسمانی طور پر ہلاکت پاکستان میں ہوئی مگر سیاسی طور پر اس کا خاتمہ مشرق وسطیٰ کی سڑکوں پر ہوا۔
عرب دنیا اور یورپ میں جاری مظاہروں کا حتمی نتیجہ کیا ہوگا اس بارے میں وثوق سے ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تاریخ کے اوراق میں 2011 ءکو دنیا میں بڑی تبدیلیوں کے سال کے طور پر ضرورلکھا جائے گا۔