مغربی کنارے کے شہر رملاّ میں پیدا ہونے کے بعد فلسطین کے ایک پناہ گزین کیمپ میں پلنے بڑھنے والی حنان الحروب رملاّ کے سمیحہ خلیل ہائی اسکول میں ٹیچر ہیں، جنہوں نے 2016ء میں گلوبل ٹیچر ایوارڈ جیتا۔
انہیں یہ ایوارڈ لڑائی سے متاثرہ علاقوں میں صدمے سے متاثرہ بچوں کی نفسیات اور رویے کو بہتر کرنے کے لیے اپنے اسکول میں کھیل کے ساتھ تعلیم دینے کا طریقہ کار اپنانے کی وجہ سے دیا گیا۔
حنان کو یہ ایواڈ برطانیہ کی ایک نجی تنظیم ورکی فاؤنڈیشن نے دیا جس میں پاکستان کی عقیلہ آصفی سمیت دنیا بھر کے 10 اساتذہ کو نامزد کیا گیا تھا۔ اس ایوارڈ کی انعامی رقم 10 لاکھ امریکی ڈالر تھی۔
حنان کہتی ہیں کہ وہ ایک ایسے ماحول میں پلی بڑھیں جہاں تشدد بہت زیادہ تھا اس وجہ سے انہیں بچپن بھی نہیں ملا “یہاں جس قسم کے ماحول میں ہم رہتے ہیں یہاں بچے شخصیت کے اعتبار سے جلد بڑے ہو جاتے ہیں، کیونکہ انہیں جو ماحول ملتا ہے وہ دنیا کے باقی حصوں سے بلکل مختلف ہے۔”
حنان نے بتایا کہ وہ بچے جو گلی محلوں میں تشدد اور لڑائی کا ماحول دیکھتے ہیں وہ جب اسکول آتے ہیں تو اساتذہ اور اپنے ہم جماعتوں کی بات ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ وہ خوف زدہ ہوتے ہیں، ضدی اور خود غرض ہوجاتے ہیں اور دوسروں کو اپنے تابع کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ وہ اندر سے ڈرے ہوئے ہوتے ہیں۔
حنان نے ان بچوں کے ذہن اور رویے کو بدلنے کے لیے کھیلوں کے ذریعے تعلیم دینے کا طریقہ اپنایا۔ وہ کہتی ہیں کہ جب وہ کمرہٴ جماعت میں داخل ہوتی ہیں تو وہ اپنے طلبا کی ٹیچر، دوست، والدہ اور کونسلر ہوتی ہیں اور جانتی ہیں کہ انہیں ہر قسم کے رویے کو تسلیم کرکے ہی اسے بدلنے کے مرحلے تک پہنچنا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کے اسکول میں آنے والے بچوں کو پہلا سبق عدم تشدد کا دیا جاتا ہے، کیونکہ بحثیت ایک ٹیچر میں اپنے اسکول اور جماعت کے اندر کے ماحول کو کنٹرول کر سکتی ہوں۔ باہر گلی محلوں کے ماحول کو نہیں۔
انہوں نے خود ایسے کھیل بنائے جس سے بچوں کے ذہنوں کو سکون ملے۔ حنان نے یہ طریقے اپنی کتاب ’ہم کھیلتے اور سیکھتے ہیں‘ میں بیان کیے ہیں۔ حنان کے بنائے گئے طریقے اب فلسطین کے دیگر اسکولوں میں بھی رائج کیے جا رہے ہیں۔
حنان نے بچوں کو کھیل کے ذریعے پڑھانے کا فیصلہ اپنے ساتھ پیش آنے والے ایک سانحے کے بعد کیا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ایک دن ان کے شوہر عمر الحروب بچوں کو اسکول سے واپس گھر لارہے تھے جس دوران اسرائیلی فوجیوں نے ان پر گولیاں چلائیں۔ “ میرے بچے اپنے باپ کو زخمی دیکھ کر خوف اور سکتے کی حالت میں آ گئے۔ اس واقعے نے میرے بچوں کے رویے، شخصیت اور تعلیم پر گہرا نقش چھوڑا۔ مجھے لگا کہ میں اپنے بچوں کو اس حادثے سے باہر لانے کے لیے اکیلی تھی۔ بچوں کو پہلے جیسا کرنے کے لیے کسی ٹیچر نے میری مدد نہیں کی۔ ہم نے گھر میں کھیل کا سلسلہ شروع کیا اور ہمسایوں کے بچوں کو مدعو کیا جس کے نتیجے میں میری بیٹیوں کی خود اعتمادی بڑھی۔
انہوں نے دوسروں سے میل جول شروع کیا اور آہستہ آہستہ تمام منفی رویہ بدلنا شروع ہوا۔ ان کی تعلیمی کارکردگی بہتر ہونا شروع ہوئی۔ اس کے بعد میں نے اپنی ڈگری کے مضامین پرائمری تعلیم میں تبدیل کیے۔
حنان کے شوہر عمر الحروب فلسطینی اتھارٹی میں نائب وزیر رہ چکے ہیں اور اب صدر محمود عباس کی انتظامیہ میں سینیئر عہدے پر کام کر رہے ہیں۔ سنہ 1980 میں پیشے کے اعتبار سے، عمر کیمسٹ تھے اور ان پر الزام تھا کہ انہوں نے 1980 میں الخلیل میں ہونے والے بم دھماکوں میں معاونت فراہم کی تھی، جس کے نتیجے میں 6 اسرائیلی شہری ہلاک ہوئے تھے۔ عمر الحروب نے بم بنانے کے لیے استعمال ہونے والے کیمیکل دینے کا جرم ثابت ہونے پر 10 سال اسرائیلی جیل میں قید کاٹی۔
حنان الحروب کہتی ہیں کہ وہ ایک فلسطینی مہاجر، ٹیچر اور ماں ہیں؛ اور ایک ایسی عورت ہیں جو بہتر مستقبل کے لیے پُر امید ہے۔