ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ نقصان جنوبی ایشیاء، جنوب مشرقی ایشیاء اور افریقہ کے خطے کو ہوگا۔
واشنگٹن —
ماہرین کو اندیشہ ہے کہ دنیا بھر میں موسماتی تغیر کی وجہ سے جنوبی ایشیاء، جنوبی مشرقی ایشیاء اور افریقہ میں پچھلی کئی دہائیوں میں کیے گئے ترقیاتی کاموں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ورلڈ بینک کی جانب سے کیے گئے ایک نئے جائزے کے مطابق دنیا بھر میں ’گلوبل وارمنگ‘ کے اثرات کم کرنے کے لیے ترجیحی اور ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ناگزیر ہے۔
ورلڈ بینک کے مطابق دنیا بھر میں خوراک کی فراہمی میں کمی، پانی کے مسائل اور زیادہ گرمی کی وجہ سے آنے والے سیلابوں کی وجہ سے ہماری دنیا کو زیادہ خطرات درپیش ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق جسے ’گرمی کو ختم کرو‘ کا نام دیا گیا ہے، ماضی میں کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا کہ فضاء میں کاربن کے اخراج کو کم نہ کیا گیا تو آئندہ چند سالوں میں دنیا کا موسم دو ڈگری اور اس صدی کے آخر تک چار ڈگری تک بڑھنے کا امکان ہے۔‘
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مندرجات بتاتے ہیں کہ سب سے زیادہ نقصان جنوبی ایشیاء، جنوب مشرقی ایشیاء اور افریقہ کے خطے کو ہوگا۔
رپورٹ کے مطابق افریقہ میں گرمی میں دو ڈگری اضافے کی وجہ سے فصلوں کو شدید نقصان پہنچے گا اور اس کے نتیجے میں جانوروں کو بھی نقصان پہنچے گا۔
دوسری طرف جنوبی ایشیاء میں مون سُون بارشوں کی پیش گوئی ممکن نہیں رہے گی اور خطے کو خشک سالی یا سیلابوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دریائے سندھ اور گنگا میں پانی کی سطح کم ہو جائے گی، جس سے تقریبا 6 کروڑ 30 لاکھ افراد کو خوراک کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کلکتہ، ممبئی اور بنگلہ دیش کے ساحلی شہروں کو دریاؤں میں پانی کی سطح بڑھنے سے سیلابوں کا خطرہ دوسرے شہروں کی نسبت زیادہ ہوگا۔
ورلڈ بینک نے انفرادی اور حکومتی سطح پر ایسے اقدامات اٹھانے پر زور دیا ہے جو ماحولیات کے لیے بہتر ہوں اور جس سے فضاء میں کاربن کا اخراج کم کرنے میں مدد مل سکے۔
ورلڈ بینک کے مطابق دنیا بھر میں خوراک کی فراہمی میں کمی، پانی کے مسائل اور زیادہ گرمی کی وجہ سے آنے والے سیلابوں کی وجہ سے ہماری دنیا کو زیادہ خطرات درپیش ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق جسے ’گرمی کو ختم کرو‘ کا نام دیا گیا ہے، ماضی میں کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا کہ فضاء میں کاربن کے اخراج کو کم نہ کیا گیا تو آئندہ چند سالوں میں دنیا کا موسم دو ڈگری اور اس صدی کے آخر تک چار ڈگری تک بڑھنے کا امکان ہے۔‘
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مندرجات بتاتے ہیں کہ سب سے زیادہ نقصان جنوبی ایشیاء، جنوب مشرقی ایشیاء اور افریقہ کے خطے کو ہوگا۔
رپورٹ کے مطابق افریقہ میں گرمی میں دو ڈگری اضافے کی وجہ سے فصلوں کو شدید نقصان پہنچے گا اور اس کے نتیجے میں جانوروں کو بھی نقصان پہنچے گا۔
دوسری طرف جنوبی ایشیاء میں مون سُون بارشوں کی پیش گوئی ممکن نہیں رہے گی اور خطے کو خشک سالی یا سیلابوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دریائے سندھ اور گنگا میں پانی کی سطح کم ہو جائے گی، جس سے تقریبا 6 کروڑ 30 لاکھ افراد کو خوراک کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کلکتہ، ممبئی اور بنگلہ دیش کے ساحلی شہروں کو دریاؤں میں پانی کی سطح بڑھنے سے سیلابوں کا خطرہ دوسرے شہروں کی نسبت زیادہ ہوگا۔
ورلڈ بینک نے انفرادی اور حکومتی سطح پر ایسے اقدامات اٹھانے پر زور دیا ہے جو ماحولیات کے لیے بہتر ہوں اور جس سے فضاء میں کاربن کا اخراج کم کرنے میں مدد مل سکے۔