|
انٹارکٹیکا کا سب سے بڑا آتش فشاں ماؤنٹ اریبس روزانہ لاکھوں روپے کے برابر سونے کے ذرات اگلنے لگا۔
بارہ ہزار 4 سو 48 فٹ کی بلندی پر واقع ماؤنٹ اریبس انٹارکٹیکا کے ان 138 آتش فشاؤں میں سے ایک ہے جو زمین کے سرد ترین برِاعظم میں واقع ہیں۔ ان میں سے تین آتش فشاں وقتاً فوقتاً لاوا خارج کرتے رہتے ہیں۔
یونی ورسٹی آف کوپن ہیگن کی 2022 کی ایک ریسرچ کے مطابق زیادہ تر برف سے ڈھکے ہوئے برِاعظم انٹارکٹیکا پر ماضی میں بہت سے ایسے آتش فشاں موجود تھے جو آج زمین پر پائے جانے والے آتش فشاں پہاڑوں سے کئی گنا بڑے تھے۔
SEE ALSO: کیا متحدہ عرب امارات میں سیلابی صورتِ حال مصنوعی بارش کا نتیجہ ہے؟ماؤنٹ اریبس حال میں انٹارکٹیکا کا سب سے بڑا آتش فشاں ہے۔ اسے 1841 میں برطانوی تحقیق دان کیپٹن سر جیمز کلارک نے پہلی بار تب دریافت کیا تھا جب اس میں سے لاوا اور گیس خارج ہو رہی تھیں۔
سائنسی جریدے 'نیو سائنس' کی 1991 کی رپورٹ کے مطابق اس آتش فشاں پہاڑ سے خارج ہونے والی گیس میں 0.1 سے 20 مائیکرو میٹر حجم کے سونے کے ذرات ملے ہیں۔ جب کہ قریب ہی برف سے 60 مائیکرو میٹر کے حجم کے ذرات بھی دریافت ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اس پہاڑ سے روزانہ 80 گرام کے قریب سونا انتہائی گرم گیس کے دھوئیں سے مل کر خارج ہوتا ہے۔ اس سونے کی قیمت لاکھوں روپے کے برابر ہے۔
سائنسی جریدے 'ایڈوانسنگ ارتھ اینڈ اسپیس سائنسز' میں 1991 میں ہی شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ سونے کے بہت سے ذخائر آتش فشاں سے نکلے پتھروں میں پائے جاتے ہیں۔ اگر ارضیات دان اس بات کا پتا لگا لیں کہ ان آتش فشاؤں میں سونا کیسے آتا ہے تو سونے کے ذخائر ڈھونڈنے میں آسانی ہو سکے گی۔
ہوا میں خارج ہوئے اس سونے سے کسی فرد کا یک دم لکھ پتی بننا بھی کچھ آسان نہیں ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق سونے کے یہ باریک ذرات ہوا کے ذریعے دور دور تک پھیل جاتے ہیں اور ایسے ذرات اس آتش فشاں سے ایک ہزار کلو میٹر دور بھی دریافت ہوئے ہیں۔