موٹر گاڑیوں کی صنعت نت نئے ماڈل متعارف کرارہی ہے۔ جن میں روایتی ایندھن سے چلنے والی کم خرچ اور آرام دہ گاڑیوں سے لے کر ، بجلی،شمسی توانائی ، ہائیڈروجن گیس اور ایندھن کے دوسرے ذرائع استعمال کرنے والی گاڑیاں شامل ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جدید گاڑیوں کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ان کے چلنے سے کاربن گیسیں خارج نہیں ہوتیں ، جنہیں گوبل وارمنگ کا ایک اہم سبب سمجھا جاتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ایسی جدید گاڑیوں کے تجربات بھی کیے جارہے ہیں جو حادثے کے امکانات کو کم سے کم کرنے کے لیے خود کار نظام کے تحت ڈرائیور کے بہت سے فرائض خود انجام دیتی ہیں۔ انٹرنیٹ کی معروف کمپنی گوگل ایک ایسی گاڑی پر تجربات جاری رکھے ہوئے ہے جسے چلانے کے لیے کسی ڈرائیور کی ضرورت نہیں ہے اور اس میں نصب کمپیوٹر مسافر کو بحفاظت اپنی منزل مقصود پر پہنچانے کے لیے ایک ذمے دار ڈرائیور کے طورپر کام کرتاہے ۔
گوگل نے کہاہے کہ اس کے انجنیئرز دو لاکھ25 ہزار کلومیٹر سے زیادہ فاصلے تک ان کاروں کی آزمائش کررہے ہیں۔ ان کاروں کو کیلی فورنیا کی مختلف سڑکوں پر ڈرائیور کے بغیر چلایا گیا۔ حتیٰ کہ سان فرانسسکو کی دشوار گذار بل کھاتی سڑکوں پر بھی ان کی کامیاب آزمائش کی گئی۔
گوگل کی کاروں میں ویڈیو کیمرے، ریڈار سنسر اور لیزر آلات نصب کیے گئے ہیں جو سڑکوں کی اونچ نیچ، لین، ٹریفک نشانات اور اردگرد کی ٹریفک کے بارے میں معلومات مرکزی کمپیوٹر کو فراہم کرتے ہیں۔ یہ کاریں سیٹلائٹ نیوی گیشن کے نظام سے منسلک ہیں، جو انہیں راستے کے تعین میں مدد دیتا ہے۔
گوگل کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کاروں پرسفر کرنا، ڈرائیوروں کے ذریعے چلائی جانے والی کاروں سے زیادہ محفوظ ہے، کیونکہ اس میں نصب آلات کی کارکردگی انسان سے زیادہ بہتر ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے ان آلات کو نہ تو اونگھ آتی ہے، نہ ان کی توجہ بٹتی ہے ، حتیٰ کہ کسی دوسری گاڑی کی جانب سے ہارن دیے جانے پر انہیں غصہ بھی نہیں آتا اور وہ اپنی ذمہ داری محتاط اور پرسکون انداز میں سرانجام دیتے ہیں۔
گوگل کی بغیر ڈرائیور کاروں کی آزمائش کے دوران ڈرائیور ان میں موجود رہے، گاڑی چلانے کے لیے نہیں بلکہ کسی ہنگامی صورت میں اس کاکنٹرول سنبھالنے کے لیے، جس کا موقع ان آزمائشوں کے دوران پیش نہیں آیا۔