یونان: سیاسی جماعتوں کے حکومت سازی کے لیے رابطے

عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی یونان کی روایت پسند سیاسی جماعت 'نیو ڈیموکریسی پارٹی' نے مخلوط حکومت کے قیام کے لیے دیگر جماعتوں سے مذاکرات کا آغاز کردیا ہے۔

یاد رہے کہ اتوار کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں کوئی بھی سیاسی جماعت واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ انتخابات کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ رائے دہندگان کی اکثریت نے ان جماعتوں پر اظہارِ اعتماد کیا ہے جو بین الاقوامی برادری کی جانب سے یونان کو دیے جانے والے 300 ارب ڈالر مالیت کے دو 'بیل آئوٹ پیکج'کی کڑی شرائط کی مخالف ہیں۔

دریں اثنا یورپی راہنماؤں نے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے یونان کے سیاست دانوں پر زور دیا ہے کہ وہ 'بیل آؤٹ پیکج' کی شرائط کا احترام کریں اور ان پر عمل درآمد جاری رکھیں۔

جرمنی کی چانسلر اینجلا مرکل نے پیر کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ یونان کی حکومت کا ملک میں جاری اصلاحاتی عمل پہ ثابت قدم رہنا"انتہائی ضروری" ہے۔

تاہم اپنے بیان میں چانسلر مرکل نے تسلیم کیا ہے کہ یونان میں جاری معاشی اصلاحاتی عمل حکومت کے لیے ایک "مشکل راستہ" ہے۔

یورپی کمیشن کی ایک ترجمان نے بھی امید ظاہر کی ہے کہ یونان کی آئندہ حکومت ان معاہدوں کا احترام کرے گی جو یونان اور عالمی برادری کے درمیان ماضی میں طے پاچکے ہیں۔

انتخابات میں یونان کی دونوں مرکزی جماعتیں، روایت پسند 'نیو ڈیموکریسی پارٹی' اور بائیں بازو کی 'پاسوک پارٹی' 300 نسشتوں کی پارلیمان میں حکومت سازی کے لیے درکار سادہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

انتخابی نتائج کے مطابق 'نیو ڈیموکریٹ' اکثریتی جماعت بن کر ابھری ہے جس کے سربراہ انتھونی سماراس کے پاس حکومت سازی کے لیے تین دن کا وقت ہے۔ اگر وہ اس مدت کے دوران درکاراکثریت حاصل نہ کرسکے تو پھر دیگر چھوٹی جماعتوں کو حکومت سازی کو موقع دیا جائے گا۔

سماراس کی جماعت نے یونان کو دیے جانے والے مشروط 'بیل آؤٹ' کی حمایت کا اعادہ کیا ہے لیکن نومنتخب رہنما کا موقف ہے کہ وہ یورپی یونین، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور 'یورپین سینٹرل بینک' سے 'بیل آؤٹ' کی، بقول ان کے، خون آشام شرائط میں نرمی کرنے کا مطالبہ کریں گے۔

عالمی معاشی اداروں اور یورپی ممالک کی جانب سے رواں برس فروری میں منظور کیے جانے والے 'بیل آؤٹ پیکج' کا مقصد یونان کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ اپنے ذمہ واجب الادا تمام قرضوں کی 2015ء تک ادائیگی کرکے نادہندہ ہونے سے محفوظ رہ سکے۔