افغان تارکینِ وطن حفیظ، محمد اور ساحل، ایتھنز میں شام کی ایک کلاس میں انگریزی پڑھ رہے ہیں۔ یونان میں رہنے والے دوسرے سینکڑوں غیر ملکیوں کی طرح، حفیظ کو بھی دارالحکومت کی سڑکوں پر گشت کرنے والے ایک ہجوم نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ ان کی دائیں آنکھ اب تک سوجی ہوئی ہے۔ انھوں نے بتایا’’میں اپنا کام ختم کرنے کے بعد، گھر واپس جا رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ مخالف سمت سے چھ سات آدمی چلے آ رہے ہیں۔ انھوں نے مجھے دیکھا اور کچھ نہیں کہا۔ پھر جب وہ میرے نزدیک آئے تو انھوں نے مجھے مارنا شروع کر دیا۔ انھوں نے میرے سر، میرے چہرے اور میرے تمام جسم پر مکے مارنے شروع کر دیے۔‘‘
یونان دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے ۔ بے روزگاری عروج پر ہے، اور حکومت نے اپنے اخراجات کم کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں۔ پورے یونانی معاشرے میں سخت ناراضگی پھیلی ہوئی ہے۔ لوگ یونان میں رہنے والے غیر ملکیوں کو اپنی ناراضگی کا نشانہ بناتے ہیں۔
تارکین وطن کے خلاف بہت سے مظاہرے ہوئے ہیں۔ اس سال کے شروع میں ہونے والا یہ مظاہرہ پُر تشدد ہو گیا۔ پھر بھی، یونان میں غیر ملکیوں کے ریلے تھمنے کا نام نہیں لیتے۔
ہر روز تقریباً 300 افراد دریائے اوروس کو پار کرنے اور یورپی یونین پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ دریا یونان اور ترکی کو ایک دوسرے سے الگ کرتا ہے۔ حراستی مراکز میں لوگوں کا بہت زیادہ ہجوم ہے۔ اس لیے بیشتر تارکین وطن کو چند روز حراست میں رکھنے کے بعد چھوڑ دیا جاتا ہے۔
نسیم لومانی خود بھی افغانستان کے رہنے والے ہیں۔ انھوں نے ایتھنز میں تارکین وطن کی مدد کے لیے ایک تنظیم قائم کی ہے۔ وہ کہتےہیں’’انہیں کوئی کام نہیں ملتا۔ وہ سیاسی پناہ کے لیے درخواست نہیں دے سکتے۔ ان کے پاس ضروری کاغذات بھی نہیں ہیں۔ لہٰذا وہ شہر کی سڑکوں پر رہنے پر مجبور ہیں۔ یونان کے مسائل اپنی جگہ پر ہیں، لیکن غلطی تو سرا سر تارکین وطن کی ہے اور وہ اس کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ آج کل یہاں اصل صورتِ حال یہی ہے۔‘‘
یونان کا کہنا ہے کہ بقیہ یورپ کو تارکین وطن کے سیلاب سے نمٹنے کے لیے زیادہ مدد دینی چاہیئے۔
ایتھنز کے باشندے، Nicholaos Sofos کی طرح یونان کے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ملک اب مزید نئے آنے والوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔’’یونان کے لوگ عیش نہیں کر رہے ہیں۔ وہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ان کے بہت سے اخراجات ہیں۔ یونان میں معیارِ زندگی خراب ہو گیا ہے ۔ یہاں آنے والے بیشتر لوگ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آئے ہیں۔ ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ کوئی بھی صورتِ حال کو کنٹرول نہیں کر سکتا۔‘‘
مئی کے شروع میں جب کسی نامعلوم قاتل نے، ایک یونانی شہری کو لوٹا اور قتل کر دیا ، تو تارکینِ وطن پر حملوں میں تیزی آگئی۔ اگلے روز، دائیں بازو کے گینگ سرگرم ہو گئے۔ انھوں نے تارکین وطن پر حملے شروع کردیے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جرائم اور بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ان غیر ملکیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔نسیم لومانی کہتے ہیں’’چند روز ہوئے ایک بنگلہ دیشی کو ایتھنز کے وسط میں قتل کر دیا گیا۔ پچاس سے زیادہ لوگ زخمی ہو چکے ہیں جن میں سے 30 چند روز ہسپتال میں رہے۔ رات کے وقت تارکینِ وطن کے گھروں پر حملے کیے گئے ہیں، ان کے دروازے اور کھڑکیاں توڑ دی گئی ہیں اور گھروں میں گھس کر لوگوں کو مارا پیٹا گیا ہے ۔ انھوں نے تارکینِ وطن کے گھروں پر بم پھینکے ہیں۔‘‘
لومانی نے الزام لگایا کہ پولیس تارکینِ وطن کو گرفتار کر تی ہے جب کہ دائیں بازو کے ہجوم کے تشدد کو نظر انداز کر دیتی ہے۔
حفیظ اور ان کے دوست ان 50,000 تارکینِ وطن میں شامل ہیں جو اپنی پناہ کی درخواستوں پر کارروائی کے انتظار میں ہیں۔ انہیں انتظار کرتے پانچ برس گزر چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’میں محسوس کرتا ہوں کہ ہم یہاں محفوظ نہیں ہیں۔ ہم خطرے میں ہیں۔ ہم اپنی زندگیاں بچانے کی خاطر افغانستان سے نکلے تھے۔ اب یہاں بھی ہماری جانیں خطرے میں ہیں۔ ہم یہاں مر بھی سکتے ہیں۔‘‘
اب جب کہ یونان کی حکومت اپنے اخراجات میں مزید کمی کرنے کی کوشش کر رہی ہے،یہاں رہنے والے تارکین وطن کو ڈر ہے کہ آنے والے مہینوں میں حالات ان کے لیے اور زیادہ خطرناک ہو جائیں گے۔