فلسطینی عیسائیوں کے لیے اس سال کرسمس کا موقع ایک مشکل اور تکلیف دہ صورتِ حال لے کر آیا ہے۔
بہت سے فلسطینی عیسائی بیت اللحم سے لے کر نیویارک تک کرسمس کے اس موسم میں حماس اور اسرائیل کی جنگ کے دوران بے بسی، درد، اور پریشانی کا شکار ہیں۔
کچھ اپنے پیاروں کا سوگ منا رہے ہیں، جنگ کے خاتمے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں، اپنے رشتے داروں کو محفوظ جگہ لانے کی جدوجہد کر رہے ہیں یا پھر کرسمس کے پیغامِ امید میں سکون حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یروشلم میں عیسائی مذہبی رہنما اور چرچوں کے سربراہان نے زور دیا ہے کہ تہوار کی کسی بھی قسم کی غیر ضروری سرگرمیوں کو ترک کیا جائے۔
SEE ALSO: یورپی اتحادیوں کا اسرائیل پر جنگ بندی کے لیے زور، سلامتی کونسل میں ایک اور قرار داداسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ نے پورے خطے کو متاثر کر رکھا ہے۔ اسرائیلی حملوں میں حماس کے زیرِ کنٹرول غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق 20 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔
غزہ اور اس کے بیس لاکھ سے زیادہ مکینوں کے مستقبل کے بارے میں جہاں بہت سے دوسرے سوالات ہیں وہاں ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا وہاں کی چھوٹی سی عیسائی آبادی وہاں برقرار رہے گی اور رہے گی تو کب تک۔
مغربی کنارے کے علاقے میں بیت اللحم چیئر ٹریڈ آرٹیزنس کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سوزن ساحوری آسٹریلیا، یورپ اور شمالی امریکہ سے زیتون کی لکڑی منگوانے کے لیے کاری گروں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں لیکن اس سال کرسمس کی تقریبات کے موڈ میں نہیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں "ہم ٹوٹ چکے ہیں۔ ان تمام بچوں کو دیکھیے ان ہلاکتوں کو دیکھیے۔"
SEE ALSO: تہوار اورشدید سردی،تارکین وطن کیلئے شیلٹرز میں جگہ کیوں نہیں ؟فلسطینی امریکی پادری ریڈیمیرو کا تعلق نیو یارک کے سینٹ جان لوتھراں چرچ سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ تہوار کیسے منا سکتے ہیں جب کہ فلسطینی بچے مصائب کا شکار ہیں ان کے پاس کوئی پناہ گاہ نہیں۔ سر چھپانے کی کوئی جگہ نہیں۔
کرسمس سے چند ہی روز قبل یروشلم کے لاطینی پیٹریاچ نے کہا کہ غزہ میں ایک چرچ کے احاطے میں دو عیسائی خواتین، اسرائیلی نشانہ بازوں کے فائر سے ماری گئیں۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ فوجی علاقے میں حماس کے جنگجوؤں کو نشانہ بنا رہے تھے۔
(اس خبر کے لیے معلومات اے پی سے لی گئی ہیں)