آستانہ: شام کے بحران پر بات چیت، ماہرین کے گروپ کی آمد

فائل

وفود مختلف امور پر گفتگو کریں گے، جن میں جنگ بندی کے سمجھوتے کا جائزہ لیا جائے گا اور خلاف ورزیوں کو روکنے پر بات چیت ہوگی، ساتھ ہی انسانی ہمدردی کی امدادی رسد کی دستیابی کو یقینی بنانے کا معاملہ شامل ہے

قزاقستان کے دارالحکومت میں ماہرین کے وفود کا ایک اجلاس منعقد ہو رہا ہے، جس میں شام میں جنگ بندی کے سمجھوتے پر گفتگو ہوگی۔

یہ اجلاس پیر کے روز آستانہ میں ہوگا، جس میں روس، ترکی، ایران اور اقوام متحدہ کے نمائندے شریک ہوں گے۔ یہ مشترکہ اقدام سے متعلق گروپ کا پہلا اجلاس ہوگا۔

وفود مختلف امور پر گفتگو کریں گے، جن میں جنگ بندی کے سمجھوتے کا جائزہ لیا جائے گا اور خلاف ورزیوں کو روکنے پر بات چیت ہوگی، ساتھ ہی انسانی ہمدردی کی امدادی رسد کی دستیابی کو یقینی بنانے کا معاملہ شامل ہے۔

گذشتہ ماہ، امن مذاکرات کے ایک دور کے لیے ایران کے ساتھ ساتھ ترکی اور روس نے حکومتِ شام اور باغیوں کے گروپوں پر مشتمل وفود کو بلایا تھا، جس کا اختتام تین ملکوں کی جانب سے جزوی جنگ بندی پر نگرانی میں مدد دینے اور شام کے تنازعے کے سیاسی حل کے لیے کام کرنے پر اتفاق کیا۔

ترکی کے ترجمان، حسین مفتوگلو نے کہا ہے کہ اُن کا ملک مخصوص لڑاکوں کو جنگ بندی میں دراڑیں ڈالنے کی اجازت نہیں دے گا، جس پر دسمبر کے اواخر میں عمل درآمد کا آغاز ہوا۔

اُنھوں نے ترکی کے مؤقف کا اعادہ کیا کہ شام کے مستقبل میں شامی صدر بشار الاسد کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔ سنہ 2211 میں جب پُرامن مظاہروں کا آغاز ہوا، اور تنازع کے دوران ترکی نے باغیوں کی پشت پناہی جاری رکھی ہے، جو بعد میں خانہ جنگی کی صورت اختیار کرگئے۔

شام میں امن کے حصول کی متعدد بین الاقوامی کوششوں کے دروان، اسد کا مستقبل نااتفاقی کی وجہ بنا رہا۔ اقوام متحدہ نے ایک طریقہٴ کار مرتب کیا ہے جس میں نئے آئین مرتب دینے اور نئے انتخابات کرانے کے بارے میں مطالبہ کیا گیا ہے۔ اسد کے اتحادی نے، جن میں ایران شامل ہے، کہا ہے کہ اُنھیں اقتدار میں رہنے دیا جائے۔