امریکہ پر گیارہ ستمبر2001ء کے دہشت گردوں کے حملوں کے بعد گوانتانامو بے، کیوبا کا حراستی مرکز، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مشتبہ ملزموں کا قید خانہ بن گیا۔ اس قید خانے کے حامی کہتے ہیں کہ جنگی کوششوں میں یہ مرکز انتہائی اہم ہے جب کہ ناقدین کہتے ہیں کہ قیدیوں کے ساتھ پوچھ گچھ کے جو سخت طریقے اختیار کیے گئے ان سے دنیا بھر میں امریکہ کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔
کیوبا میں گوانتانامو بے کے قید خانے میں جو لوگ قید ہیں ان میں کچھ وہ ہیں جن پر 2001ء میں امریکہ پر دہشت گردی کے حملوں کی منصوبہ بندی کا شبہ ہے۔
امریکی فوج کے گارڈز جو یہاں قیدیوں کی نگرانی پر مامور ہیں، محسوس کرتے ہیں کہ وہ امریکہ کو خطرات سے محفوظ رکھنے میں اہم رول ادا کر رہے ہیں۔
ڈینئیل سنل امریکی بحریہ میں ماسٹر ایٹ آرمز ہیں وہ کہتے ہیں کہ ’’میرے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات ہے۔ مجھے اپنے کام پر فخر ہے۔‘‘
فخر کا یہ احساس گوانتانامو میں کام کرنے والے امریکی فوجی عملے میں مشترک ہے۔ لیکن یہ حراستی مرکز بہت سے امریکیوں کے درمیان اختلافات کا باعث بن گیا ہے۔ 2009ء میں جب صدر براک اوباما نے اپنا عہدہ سنبھالا تو اُنھوں نے وعدہ کیا کہ وہ اس مرکز کو بند کر دیں گے۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں قیدیوں پر اذیت رسانی کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ ملا عبد السلام ضعیف طالبان کے سابق سفارتکار ہیں۔ وہ گوانتانامو میں قید رہ چکے ہیں اور آج کل کابل میں رہتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’’وہ قیدیوں کو قیدِ تنہائی میں اور سخت سردی میں ڈال دیتے تھے تا کہ آپ ان کے سوالات کے جواب دیں۔ وہ ہر قسم کا طریقہ اور ہر قسم کی اذیت استعمال کرتے تھے۔‘‘
سابق وزیرِ دفاع ڈونلڈ رمسفیلڈ اور صدر جارج ڈبیلو بش کی انتظامیہ کے دوسرے اعلیٰ عہدے داروں کا اصرار ہے کہ گوانتانامو میں کبھی کسی قسم کی اذیت نہیں دی گئی۔ ’’وہ اپنے لوگوں کو اذیت رسانی کا الزام لگانے کی تربیت دیتے ہیں۔ جب کبھی کسی دہشت گرد کو گرفتار کیا جاتا ہے تو پہلی چیز جو وہ کہتا ہے یہ ہوتی ہے کہ مجھے اذیتیں دی جا رہی ہیں۔ اور پریس عام طور سے ان الزامات کو چھاپ دیتا ہے اگرچہ یہ غلط ہوتےہیں۔‘‘
گوانتانامو میں امریکی بحریہ کے انچارج افسر ریئرایڈمرل جیفری ہربیسن کہتے ہیں کہ قیدیوں کے ساتھ برا سلوک نہیں کیا جاتا۔’’ ہم اپنے گارڈز کے ساتھ طرز عمل کا اعلیٰ ترین معیار قائم رکھتے ہیں۔ ہم قیدیوں کو حراست میں رکھنے کے معاملات میں خود کو پیشہ ورانہ مہارت کا نمونہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔‘‘
مثلاً قیدیوں کو دن میں تین بار کھانا دیا جاتا ہے اور وہ چھہ مختلف قسم کے کھانوں میں سے اپنی مرضی کا کھانا چن سکتے ہیں۔ انہیں 24 گھنٹے طبی سہولتیں دی جاتی ہیں انہیں کتابوں، فلموں اور مذہبی مواد تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
لیکن یہ ہے تو قید خانہ ہی اور یہاں جو لوگ قید ہیں ان میں سے کچھ کو اتنا خطرناک سمجھا جاتا ہے کہ انہیں یہاں غیر معینہ مدت کے لیے رکھا جا سکتا ہے۔
گوانتانامو بے میں ایک قید خانہ انتہائی خفیہ ہے اتنا زیادہ کہ کسی کو یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ کہاں واقع ہے۔ اسے کیمپ سیون کہتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اس میں امریکہ پر دہشت گردوں کے نائن الیون کے حملوں کے ملزموں کو رکھا گیا ہے۔کرنل ڈومنی تھامس گوانتانامو کے حراستی مرکز میں سیکورٹی کے انچارج ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’قومی سلامتی کے پیشِ نظر ہم کیمپ سیون کے بارے میں کچھ زیادہ بات چیت نہیں کر سکتے۔‘‘
قومی سلامتی کے بارے میں تشویش کے پیش نظر گوانتانامو کو اتنی زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ فوجی کمانڈروں نے محسوس کیا کہ نائن الیون کے حملوں کے بعد گرفتار ہونے والے مشتبہ ملزموں سے اسی جگہ پوچھ گچھ کی جاسکتی ہے۔
کلی سٹمسن محکمۂ دفاع کے سابق چوٹی کے عہدے دار ہیں اور آج کل ہیرٹیج فاؤنڈیشن سے وابستہ ہیں۔ ’’ہم پر ان لوگوں کو پکڑنے کے لیے جن کے بارے میں ہم جانتے تھے یہ جن کے بارے میں ہمیں شبہ تھا کہ وہ نائن الیون کی سازش میں شریک تھے شدید دباؤ تھا تا کہ مستقبل میں حملوں کو روکا جا سکے۔‘‘ لیکن یللے یونیورسٹی میں فوجی قانون کے لیکچرر ایوجینی فیڈل کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے مشتبہ ملزموں کو گوانتانامو بھیجنا غلطی تھی۔ ’’اس سے دنیا بھر میں ہمارے ملک کی ساکھ کوناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ اس سے قانونی مسائل کی بڑی پیچیدہ صورتِ حال پیدا ہو گئی اور نظام انصاف میں سیاست کا دخل ہو گیا۔‘‘
گوانتانامو میں جو تقریباً 780 قیدی لائے گئے تھے ان میں تقریباً 600 اپنے ملکوں میں یا کہیں اور منتقل کیے جا چکے ہیں۔ لیکن کانگریس نے بقیہ قیدیوں کو وہاں سے نکالنے اور امریکہ میں مقدمہ چلانے کی کوششوں کو بلاک کر دیا ہے ۔ اور اولین ملزموں کے یہاں لائے جانے کے تقریباً دس سال بعد بھی، ایسے آثارنظر نہیں آتے کہ یہ متنازعہ قید خانہ مستقبل قریب میں بند کیا جائے گا۔
http://maps.google.com/maps/ms?msid=215280588115470359599.0004abb84de1c1e99df1d&msa=0&ie=UTF8&vpsrc=6&ll=41.508577,-4.21875&spn=146.999282,338.203125&z=1&output=embed
View Muslim Voices in a larger map