ترکی کی حکومت نے جمعے کی شب ترک فوج کے ایک دھڑے کی جانب سے ملک کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کا الزام گولن تحریک پر عائد کیا ہے۔ یہ تحریک ترک نژاد مذہبی رہنما فتح اللہ گولن سے موسوم ہے جو گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے خود ساختہ جلاوطنی پر امریکہ کی ریاست پینسلوینیا میں مقیم ہیں۔
فوجی بغاوت کی اطلاعات کے بعد جمعے کی شب ایک لوکل ٹی وی اسٹیشن سے گفتگو کرتے ہوئے ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے کہا ، "ترکی ایسا ملک نہیں جسے پینسلوانیا میں بیٹھ کر چلایا جاسکے۔"
ترکی کی حکومت نے رواں سال مئی میں گولن تحریک کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ تنظیم کے ارکان حکومت کا تختہ الٹنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور ان کےخلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
گولن تحریک کے ارکان چند سال قبل تک صدر رجب طیب ایردوان کے سرگرم حامی تھے اور تحریک سے منسلک ذرائع ابلاغ نے ایردوان اور ان کی جماعت 'آک' پارٹی کو ترک سیاست میں مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
تاہم 2013ء میں پولیس اور محکمۂ استغاثہ کے بعض افسران کی جانب سے صدر ایردوان کے قریبی ساتھیوں اور اہلِ خانہ کے خلاف بدعنوانی کے الزام میں تحقیقات شروع کرنے کے بعد گولن تحریک اور حکمران جماعت کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے۔
صدر ایردوان نے الزام عائد کیا تھا کہ ان کے ساتھیوں اور اہلِ خانہ کے خلاف تحقیقات کرنے والے افسران کا تعلق گولن تحریک سے ہے جو امریکہ میں مقیم اپنے رہنما کی ایما پر منتخب حکومت کو بدنام اور کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس واقعے کے بعد سے ترک حکومت نے سرکاری ملازمتوں اور عہدوں پر فائز گولن تحریک کے ہزاروں مبینہ حامیوں کو برطرف کیا ہے، سیکڑوں کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمات چلائے جارہے ہیں جب کہ گولن تحریک سے منسلک کئی کمپنیوں اور اداروں کے خلاف بھی کارروائی کی گئی ہے۔
ترک حکومت کا الزام ہے کہ فتح اللہ گولن کے حامیوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت صحافت، عدلیہ، فوج، پولیس اور بیوروکریسی میں اپنا حلقۂ اثر قائم کر رکھا ہے اور ریاست کے اندر ریاست تشکیل دے رکھی ہے۔
اس کے برعکس گولن تحریک کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ترک صدر ایردوان ایک آمر ہیں جن کی حکومت کی بدانتظامی اور بدعنوانی سامنے لانے پر ان کی تحریک کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
کئی سال سے امریکہ میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزارنے کے باوجود 75 فتح اللہ گولن اب بھی ترکی کے بعض حلقوں میں خاصے مقبول ہیں اور کہا جاتا ہے کہ صرف 2004ء سے 2015ء کے دوران ترکی میں موجود ان کے حامیوں نے ان کی تحریک کے لیے 50 ملین لیرا (17 ملین ڈالرز) سے زائد کا چندہ جمع کیا۔
فتح اللہ گولن کی تحریک 'حزمت' کہلاتی ہے جس کی شناخت بڑی حد تک ایک صوفی تحریک کی ہے جو مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کا پرچار کرتی ہے۔ حزمت تحریک کے تحت یورپ، امریکہ، ایشیا اور افریقہ میں سیکڑوں تعلیمی اور سماجی خدمت کے ادارے کام کر رہے ہیں۔