افغان حکام نے تصدیق کی ہے کہ پیر کو کابل یونیورسٹی میں دہشت گردوں کے حملے میں طلبہ سمیت کم سے کم 19 افراد ہلاک جب کہ تین حملہ آور مارے گئے ہیں۔
افغان وزارتِ داخلہ کے ترجمان طارق آریان کے مطابق امن اور علم کے دشمن کئی مسلح دہشت گرد یونیورسٹی میں داخل ہو گئے جنہیں سیکیورٹی اہلکاروں نے روکنے کی کوشش کی اور اس دوران فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا۔
طارق آریان کا کہنا تھا کہ بہت سے اساتذہ اور طلبہ کو یونیورسٹی سے بحفاظت نکال لیا گیا ہے۔
یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے وائس آف امریکہ افغان سروس کو بتایا کہ دورانِ کلاس چند طلبہ نے کلاس روم میں داخل ہو کر اُنہیں حملے کے بارے میں بتایا جس کے بعد لوگ یونیورسٹی کے خارجی دروازوں کی طرف بھاگنے لگے۔
ہائیر ایجوکیشن کی وزارت کے ترجمان نے بتایا کہ یونیورسٹی کے شعبہ قانون اور پولیٹیکل سائنس کے باہر فائرنگ کی آوازیں سنی گئیں جس کے بعد بڑی تعداد میں طلبہ اور اساتذہ کو بحفاظت نکال لیا گیا۔
کابل یونیورسٹی میں فائرنگ کی کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہیں جن میں طلبہ کو ادھر اُدھر بھاگتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب طالبان نے یونیورسٹی میں فائرںگ کے واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔
تاہم افغان صدر اشرف غنی اور نائب صدر امراللہ صالح نے طالبان کو واقعے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔
امراللہ صالح کا اپنی ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ واقعہ انٹیلی جنس کی ناکامی ہے جس کی تحقیقات کی جائیں گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ طالبان اور اُن کے ہمدرد اس واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کر کے اس کارروائی میں اپنے ہاتھ صاف نہیں کر سکتے۔
افغان مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے بھی حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس بزدلانہ کارروائی قرار دیا ہے۔
کابل یونیورسٹی میں فائرنگ کے بعد طلبہ کو یونیورسٹی کی دیواریں پھلانگتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کابل میں حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے ذمہ دارں کو لازمی طور پر انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ افغانستان کے عوام اور ان کی حکومت کی امن کے لیے خواہش کی حمایت کرتا ہے۔
یاد رہے کہ رواں برس فروری میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ طے پایا تھا جس میں طالبان کے دہشت گردی کی روک تھام کی یقین دہانیوں کے بدلے امریکہ نے افغانستان سے اپنی افواج مئی 2021 تک واپس بلانے کا کہا تھا۔
طالبان نے اس کے بدلے مستقل جنگ بندی اور افغان حکومت کے ساتھ شراکتِ اقتدار کا فارمولا طے کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی تھی۔
افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ستمبر میں مذاکرات کا آغاز ہوا تھا۔ البتہ ان مذاکرات میں کسی بھی قسم کی پیش رفت کی رپورٹ سامنے نہیں آ سکی ہے۔