علی رانا
سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپر ملز کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے جس میں عدالت کا کہنا ہے کہ ریفرنس کا مقصد ملزمان کو دباؤ میں لانے کے سوا کچھ نہ تھا جب کہ ملزمان کو دفاع کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔
سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپر ملز کیس کھولنے سے متعلق نیب کی اپیل پر اپنا تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔ 36 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ تین رکنی بینچ نے متفقہ طور پر دیا تھا جس کے سربراہ جسٹس مشیر عالم تھے جبکہ ان کے ساتھ قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مظہرعالم میاں خیل شامل تھے۔
تفصیلی فیصلے کے مطابق حدیبیہ کیس کی اپیل نیب نے 1229 دن تاخیر سے دائر کی، جس کی وجوہات نیب بیان نہیں کرسکا۔
نیب نے عدالت میں نوازشریف اور شہباز شریف کی خودساختہ جلاوطنی کا موقف اپنایا۔ نیب کا یہ موقف حقائق کے برخلاف ہے۔ نوازشریف ،شہباز شریف نے وطن واپسی کے لئے درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کیں، جبکہ ان دونوں کو باہر بھیجنے والے افراد کے خلاف نیب نے کوئی کارروائی نہیں کی۔
تفصیلی فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ اسحاق ڈار کا اعترافی بیان ملزمان کی موجودگی میں لیا جانا چاہیئے تھا اور اس پر ملزمان کو جرح کا موقع ملنا چاہیئے تھا۔ قانونی نکات سے ہٹ کر لیے جانے والے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ اسحاق ڈار کا بیان نہ تو چیئرمین نیب اور نہ ہی احتساب عدالت کے سامنے لیا گیا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ کیس کی دوبارہ تحقیقات نہ کرنے کے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے مطمئن ہیں تاہم ہائی کورٹ جج نے دوبارہ تحقیقات نہ کرانے کی وجوہات اپنے فیصلے میں بیان نہیں کیں۔
ریفرنس کو غیر معینہ مدت تک زیرالتوا رکھ کر قانونی عمل کی نفی کی گئی جبکہ ریفرنس کے وقت نیب پرعزم نظر نہیں آیا اور نیب نے ٹرائل کورٹ میں ملزمان کے خلاف ایک بھی گواہ یا ثبوت پیش نہیں کیا۔
عدالت کا کہنا ہے کہ کسی شخص پر الزام کا فیصلہ جلدازجلد ہونا چاہئے تاکہ قصور وار ملزم کو سزا اور بے قصور بری ہو سکے۔ غیر معینہ مدت تک التوا میں رہنے والے مقدمات “انصاف میں تاخیر ناانصافی کے مترادف” کے محاورے کو سچا ثابت کرتے ہیں۔
چار سال تک چیئرمین نیب نے ریفرنس بحالی کے لئے کوئی درخواست نہیں دی۔ پھر جب چیئرمین نیب نے بحالی کی درخواست دی تو کیس کی پیروی نہیں کی۔
تفصیلی فیصلے میں میڈیا کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا گیا کہ سماعت کے دوران میڈیا کی جانب سے سنجیدہ رپورٹنگ کی گئی جبکہ کچھ میڈیا گروپس نے کیس میں دلچسپی رکھنے والے افراد کی رائے کو بھی شائع کیا۔
ٹرائل کورٹ میں نیب نے کئی بار التوا کی درخواستیں دیں جس کی کوئی مناسب وجوہات بیان نہیں کیں۔ جبکہ ٹرائل کورٹ میں ملزمان میں سے کسی نے بھی کیس کو ملتوی کرنے کی استدعا نہیں کی اور ملزمان کی جانب سے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنے پر نیب متحرک ہوگیا۔
پچھلے سال 15سمبر کو سپریم کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف حدیبیہ کیس کو دوبارہ کھولنے سے متعلق نیب کی اپیل مسترد کردی تھی۔
نیب نے 20 ستمبر 2017 کو یہ کیس دوبارہ کھولنے کےلیے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی جس میں نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، شمیم اختر اور صاحبہ شہباز کو فریق بنایا گیا۔
یہ اپیل سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما کیس کی سماعت کے دوران جے آئی ٹی کی سفارش پر نیب نے دائر کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
اس کیس کی بنا پر وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے حوالے سے مختلف اطلاعات آرہی تھیں کہ ان کے خلاف کارروائی کے لیے اس کیس کو استعمال کیا جائے گا لیکن اس ریفرنس کو کھولنے سے سپریم کورٹ کے انکار کے بعد مسلم لیگ(ن) کے حلقوں میں اطمینان پایا جاتا ہے۔ جبکہ نیب اور اپوزیشن کی طرف سے اس پر نظرثانی اپیل بھی دائر کیے جانے کا امکان ہے۔