امریکہ کے وزیرِ دفاع چک ہیگل نے کہا ہے کہ اپنی صلاحیت، وسائل اور عسکری طاقت کے باعث عراق کی شدت پسند تنظیم'ریاستِ اسلامیہ' کے جنگجو امریکہ کے لیے 'القاعدہ' سے بڑا خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں۔
جمعرات کو امریکی محکمۂ دفاع 'پینٹاگون' میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے چک ہیگل نے کہا کہ 'ریاستِ اسلامیہ' (سابق 'دولۃ الاسلامیۃ فی العراق والشام' - داعش) عراق اور دنیا بھر میں موجود امریکی مفادات کے لیے ایک فوری خطرہ بن چکی ہے۔
شام کے وسیع علاقے پر قابض 'داعش' نے دو ماہ قبل عراق پر چڑھائی کی تھی اور اب تک تنظیم کے جنگجوملک کے بیشتر شمالی علاقوں پر قبضہ کرچکے ہیں جہاں سنی مسلمانوں کی اکثریت ہے۔
تنظیم نے اپنے زیرِ قبضہ شام اور عراق کے علاقوں کو اسلامی خلافت قرار دے دیا ہے اور اس کے جنگجو گزشتہ ہفتوں کے دوران عراق کے کرد اکثریتی علاقوں اور اقلیتی آبادیوں پر حملے کرکے عالمی برادری کی توجہ حاصل کرچکے ہیں۔
تنظیم نے رواں ہفتے انٹرنیٹ پر ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں جنگجووں کو نومبر 2012ء میں شام میں اغوا ہونے والے امریکی صحافی کا سر قلم کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
شدت پسند تنظیم کا کہنا ہے کہ اس کا یہ قدم عراق میں اس کے ٹھکانوں اور توپ خانوں پر امریکی فضائی حملوں کا جواب اور امریکہ کے لیے مزید حملوں سے باز رہنے کا ایک انتباہ ہے۔
جمعرات کو پریس بریفنگ کے دوران صحافیوں کے اس سوال پر کہ آیا 'ریاستِ اسلامیہ' امریکہ کے لیے 11 ستمبر 2001ء کے حملوں جیسا کوئی خطرہ بن سکتی ہے، چک ہیگل کا کہنا تھا کہ جنگجو گروپ ان تمام شدت پسند تنظیموں سے زیادہ منظم اور وسائل سے مالا مال ہے جن سے اب تک امریکہ کا پالا پڑا ہے۔
امریکی وزیرِ دفاع نے کہا کہ ان کے ملک کو ماضی میں کسی ایسی تنظیم سے سابقہ پیش نہیں آیا جو 'ریاستِ اسلامیہ' کی طرح نظریاتی بنیادوں پر استوار، منظم فوجی صلاحیت کی حامل اور وسائل سے مالا مال ہو۔
صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی مسلح افواج کے سربراہ جنرل مارٹن ڈیمپسی کا کہنا تھا کہ 'ریاستِ اسلامیہ' میں شامل یورپی اور امریکی باشندے عراق اور شام کی لڑائی سے فراغت کے بعد اگر اپنے آبائی ملکوں کو واپس لوٹے تو یہ گروہ مغربی ملکوں کے لیے بھی ایک براہِ راست خطرہ بن سکتا ہے۔
خیال رہے کہ اوباما انتظامیہ نے امریکی فوج کو رواں ماہ کے آغاز پر شمالی عراق میں 'داعش' کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کی اجازت دی تھی تاکہ تنظیم کے جنگجووں کو عراق کے نیم خودمختار کرد علاقے اور اس کے نواح میں واقع اقلیتی آبادیوں پر حملوں سے روکا جاسکے۔
حکم ملنے کے بعد امریکی فضائیہ شدت پسندوں کے توپ خانے اور دیگر عسکری سامان پر کئی بار بم برسا چکی ہے جس نے تنظیم کے جنگجووں کی پیش قدمی روکنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
تاہم بعض امریکی اہلکاروں کی جانب سے یہ رائے بھی سامنےآئی ہے کہ 'ریاستِ اسلامیہ' کا زور مکمل طور پر توڑنے کے لیے ضروری ہے کہ تنظیم کے شام میں موجود ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنایا جائے جہاں گزشتہ ساڑھے تین سال سے جاری خانہ جنگی اور بدامنی نے تنظیم کو پنپنے اور اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے مثالی ماحول فراہم کیا ہے۔