ہیگل مستعفی، جانشین کی تعیناتی تک خدمات بجا لائیں گے

فائل

وائٹ ہاؤس تقریب میں، صدر اوباما نے کہا ہے کہ ہیگل ایک ’بردبار شخص‘ ہیں، جنھوں نے ایبولا اور داعش کے چیلنجوں سے نبردآزما ہونے میں انتظامیہ کی بہت مدد کی

امریکی وزیر دفاع، چَک ہیگل نے تقریباً دو برس تک اس عہدے پر فائز رہنے کے بعد، استعفیٰ دے دیا ہے۔

صدر براک اوباما نے ہیگل اور نائب صدر جو بائیڈن کے ہمراہ پیر کو وائٹ ہاؤس میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب میں کہا ہے کہ وزیر دفاع نے گذشتہ ماہ اُن سے کہا کہ اب عہدے سے علیحدہ ہونے کا وقت آگیا ہے۔

مسٹر اوباما نے کہا کہ ہیگل ایک ’بردبار شخص‘ ہیں، جنھوں نے ایبولا اور داعش کے چیلنجوں سے نبردآزما ہونے میں اُن کی انتظامیہ کی بہت مدد کی۔

صدر نے ہیگل کو ’ایک مثالی وزیر دفاع‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ عشروں سے امریکہ کی قومی سلامتی، ودری میں ملبوس مرد و زن کے لیے زندگی وقف کر رکھی ہے۔

صدر اوباما نے کہا کہ ’ہیگل کے خیال میں، اُن کی طرف سے عہدے سے سبک دوش ہونے کا یہ مناسب وقت ہے‘۔

ہیگل کا تعلق ریپبلیکن پارٹی سے تھا، اور صدر اوباما اور اُن میں اُس وقت قربت پیدا ہوئی جب دونوں سینیٹ کے رکن تھے۔

اِس سے قبل، اخبار ’دی نیو یارک ٹائمز‘ نے پیر کے روز انتظامیہ کے اعلیٰ اہل کاروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ استعفیٰ ’دباؤ کے نتیجے میں‘ سامنے آیا ہے، جب کہ متعدد خارجہ پالیسی بحران نمودار ہوئے ہیں، جن میں شام اور عراق میں شدت پسند گروہ، داعش کے خلاف لڑائی شامل ہے۔

دفاع کے سربراہ نے پیر کی علی الصبح امریکی صدر براک اوباما کو اپنے استعفیٰ پیش کیا۔

امریکی اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر کی طرح، جنھوں نے ستمبر میں استعفیٰ دیا تھا، ہیگل نے کہا ہے کہ وہ تب تک اس عہدے پر فائز رہیں گے جب تک اُن کےجانشین کی تعیناتی کی توثیق نہیں ہوجاتی۔

وہ کابینہ کے پہلے رکن ہیں جو اس ماہ کے اوائل میں ریپبلیکن پارٹی کی طرف سے سینیٹ میں کامیابی کے حصول کے بعد سبک دوش ہو رہے ہیں۔ ریپبلیکنز کو اب کانگریس کے دونوں ایوانوں میں مکمل اکثریت حاصل ہے۔

ہیگل نے فروری 2013ء میں وزیر دفاع کے طور پر عہدے کا حلف لیا تھا۔ وہ لیون پنیٹا کے جانشین تھے۔

وہ سابق فوجی ہیں، جو سرکاری اور نجی شعبوں میں، ویتنام میں خدمات بجا لائے۔

ریاستِ نبراسکا سے ریپبلیکن پارٹی کے ٹکٹ پر، وہ سنہ 1996 میں سینیٹر منتخب ہوئے، اور اُن کا سنہ 2009 تک اِسی پارٹی سے تعلق رہا۔