آیا صوفیہ میں 86 برس بعد نماز

سن 1985 میں یونیسکو کی 'عالمی تاریخی مقامات' کی فہرست میں شامل ہونے والا آیا صوفیہ بنیادی طور پر گرجا گھر تھا جسے خلافتِ عثمانیہ کے دور میں مسجد میں تبدیل کردیا گیا تھا۔
 

مسجد سے باہر لان میں بھی نمازیوں کی بڑی تعداد موجود تھی جو نماز کے وقت سے کافی پہلے وہاں پہنچ گئے تھے۔

ترک انقلاب کے بعد 1930 کی دہائی میں اسے میوزیم بنا دیا گیا جس کے بعد سے یہاں عبادت پر پابندی عائد تھی۔
 

نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے مسجد کے باہر خواتین اور مردوں کے لیے علیحدہ علیحدہ جگہ کا انتظام کیا گیا تھا۔
 

ایک اندازے کے مطابق نمازِ جمعہ میں تقریبا ایک ہزار سے زائد نمازی شریک ہوئے۔ 

 

ترکی کی عدالت عظمیٰ نے چند روز قبل اپنے ایک حکم میں 1934 میں میوزیم میں تبدیل کی گئی تاریخی عمارت آیا صوفیہ کو ایک بار پھر مسجد میں تبدیل کرنے کا حکم دیا تھا۔
 

آیا صوفیہ کو جدید ترکی کے بانی مصطفی کمال اتاترک نے 1934 میں مسجد سے میوزیم میں تبدیل کردیا تھا جب کہ موجودہ صدرطیب ایردوان نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اسے دوبارہ مسجد میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
 

آیا صوفیہ کے لیے تین موذنوں کی تقرری کا اعلان کیا گیا تھا جن میں سے دو کا تعلق استنبول کی مشہور سلطان احمد مسجد (بلیو موسک) سے ہے۔
 

ترک صدر رجب طیب نے ایک روز قبل بھی مسجد کا دورہ کیا تھا اور نماز جمعہ کے لیے انتظامات کا معائنہ کیا تھا۔

آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کے لیے ترک حکام نے ہنگامی بنیادوں پرکام شروع کیا تھا۔ جدید ترکی کے بانی اور پہلے صدر مصطفی کمال اتا ترک کے حکم پر آیا صوفیہ کو میوزیم میں تبدیل کردیا گیا تھا جسے 1935 میں عوام کے لیے کھول دیا گیا۔


 

ترک صدر نے مسجد کے دروازے پر نصب تختی کی نقاب کشائی کی۔ آیا صوفیہ کی تعمیر کا حکم بازنطینی بادشاہ جسٹنیئن اول نے 532ء میں دیا تھا جب کہ سن 537 میں آیا صوفیہ کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد گرجا گھر میں عیسائیوں کی مذہبی رسومات منعقد کی گئیں اور اگلے 900 سال تک آیا صوفیہ گرجا گھر کے طور پر برقرار رہا۔ تاہم سن 1453 میں عثمانی فوجوں نے استنبول شہر پر قبضہ کیا تو اسے مسجد میں تبدیل کردیا گیا۔

 

 

سن 1616 میں سلطان احمد مسجد جسے 'بلیو موسک' بھی کہا جاتا ہے، اس کی تعمیر تک آیا صوفیہ استنبول کی مرکزی مسجد شمار ہوتی تھی۔
 

صدر رجب طیب ایردوان بھی نماز جمعہ ادا کرنے والوں میں شامل تھے۔