ہیگ میں عالمی عدالت نے بحیرہ جنوبی چین کے علاقائی تنازع پر فلپائن کی درخواست کو سماعت کے لیے منظور کر لیا ہے۔ چین نے اس مسئلے کی سماعت کے خلاف درخواست دی تھی مگر عدالت نے چین کا مؤقف مسترد کر دیا ہے۔
جمعرات کو پرماننٹ کورٹ آف آربٹریشن نے کہا کہ یہ مقدمہ اقوام متحدہ کے بحری قانون پر کنونشن کی تشریح سے متعلق ہے جو عدالت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔
چین کا مؤقف تھا کہ یہ تنازع سمندر میں جزائر کی ملکیت سے متعلق ہے جس پر عدالت کا کوئی اختیار نہیں۔
جمعے کو چین کے ایک اعلیٰ سفارت کار نے بیجنگ کے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ نہ تو اس کیس میں حصہ لے گا اور نہ ہی اس کے فیصلے کو تسلیم کرے گا۔
اس مسئلے پر فلپائن کے وکیل فلورن ہلبے نے عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقوام متحدہ کے بحری قانون پر کنونشن کے تحت فریقین کے حقوق کی تشریح اور ان کے درمیان تنازعات کے پرامن اور غیر جانبدارانہ تصفیے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔
ایک اعلیٰ دفاعی عہدیدار کے مطابق امریکہ نے بھی اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔
چین کا بحیرہ جنوبی چین کے تقریباً تمام علاقوں پر ملکیت کا دعویٰ ہے۔ فلپائن، برونائی، ملائیشیا، تائیوان اور ویتنام کا بھی اس سمندر کے کچھ علاقوں پر دعویٰ ہے جو اہم عالمی تجارتی گزرگاہ ہیں۔
چین متنازع پانیوں میں موجود چٹانوں پر مصنوعی جزائر تعمیر کر رہا ہے۔ اس ہفتے امریکی بحریہ کے ایک جنگی جہاز نے ایک متنازع جزیرے کے قریب 22 کلومیٹر کی علاقے میں گشت کیا جس پر چین سخت ناراض ہوا۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ ہر اس جگہ بحری جہاز بھیجے گا جس کی اجازت بین الاقوامی قانون دیتا ہے۔
عالمی عدالت کا کہنا ہے کہ وہ چین کے خلاف فلپائن کی 15 میں سے سات شکایات پر غور کرے گی جبکہ سات کو اس نے مسترد کر دیا ہے۔ ایک شکایت پر عدالت نے فلپائن سے مزید تفصیلات طلب کی ہیں۔
عدالت اگلے سال کسی وقت اپنا حتمی فیصلہ سنائے گی۔ چین کا کہنا ہے کہ وہ عدالت کے حتمی فیصلے کو تسلیم نہیں کرے گا اور فلپائن کے علاقائی پانیوں کے قریب واقع جزائر پر اپنی ملکیت کے دعوے پر قائم رہے گا۔ چین نے کہا ہے کہ وہ اس مسئلے کو دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔