سہیل انجم
سپریم کورٹ نے کیرالہ کی 24 سالہ نو مسلم خاتون کے معاملے پر سماعت کے دوران قومی تحقیقاتی ایجنسی این آئی اے کو ہادیہ کی شادی کی جانچ پرکھ سے روکتے ہوئے کہا کہ وہ مذہب کی جبری تبدیلی کے مبینہ الزام کی تحقیقات جاری رکھے مگر ہادیہ کی شادی سے اسے کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی والے تین رکنی بینچ نے کہا کہ ہادیہ بالغ ہے اور اس نے عدالت میں آکر کہا ہے کہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ جانا چاہتی ہے۔ ایسے میں ہم کیا کر سکتے ہیں۔ شادی صحیح ہے یا نہیں یہ کوئی اور نہیں بلکہ لڑکی یا لڑکا ہی بتا سکتا ہے۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ شادیوں کو مجرمانہ سازش، مجرمانہ پہلو اور مجرمانہ کارروائیوں کے دائرے سے الگ رکھا جانا چاہیے ورنہ ہم ایک غلط نظیر قائم کریں گے۔
عدالت نے مزید کہا کہ ہادیہ کے معاملے میں صرف یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ کیرالہ ہائی کورٹ نے اس کی شادی کو جو غیر قانونی قرار دے دیا ہے وہ صحیح ہے یا نہیں۔
اسلام قبول کرنے سے پہلے ہادیہ کا نام اکھیلا تھا۔ اس کے والد اشوکن نے ہائی کورٹ میں اپنی اپیل میں الزام لگایا تھا کہ اس کی بیٹی سے زبردستی شادی کی گئی ہے۔ یہ لو جہا دکا معاملہ ہے اور اسے بعد ازاں شام لے جایا جائے گا۔
ہادیہ کے شوہر شافعین جہاں نے کیرالہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا اور درخواست کی تھی کہ اس کی بیوی کو اس کے پاس بھیجا جائے۔
سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ مشتاق احمد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب ہادیہ نے عدالت میں آکر یہ کہہ دیا تھا کہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے اور اس پر کوئی جبر نہیں کیا گیا ہے تو معاملہ اسی وقت ختم ہو جانا چاہیے تھا۔ ایسے معاملات میں عدالت لڑکی سے صرف یہ پوچھتی ہے کہ اس کی شادی کیسے ہوئی اور وہ کہاں جانا چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ لو جہاد کے پراپیگنڈے کی وجہ سے یہ معاملہ الجھ گیا ہے۔ لیکن سپریم کورٹ، ہائی کورٹ کے فیصلے کو رد کرے گی اور ہادیہ کی شادی کو جائز ٹہرائے گی۔
اس معاملے کی اگلی سماعت 22 فروری کو ہوگی۔ عدالت نے گزشتہ سماعت پر ہادیہ کی مرضی کے پیش نظر اس کو والدین کے گھر سے تمل ناڈو میں واقع ہومیوپیتھک کالج میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کی غرض سے بھیج دیا تھا۔
ہادیہ نے اسلام قبول کرنے کے بعد کیرالہ ہی کے ایک رہائشی شافعین جہاں سے شادی کی تھی جو اومان میں کام کرتا ہے ۔ ہندو وادی تنظیموں نے الزام لگایا تھا کہ یہ مبینہ طور پر لو جہاد کا معاملہ ہے۔