تجزیہ کار فاروق حسنات کا کہنا تھا کہ، ’واشنگٹن اس وقت یہ سوچ رہا ہے کہ پاکستان کو ان عناصر سے بات چیت ضرور کرنی چاہئے جو 2014ء میں افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کی راہ میں مشکلات پیدا کر سکتے ہیں‘۔
واشنگٹن —
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی مبینہ ڈرون حملے میں ہلاکت کی اطلاعات کے بعد اب طالبان سے مذاکرات کا مستقبل کیا ہوگا۔۔ اس موضوع پر وائس آف امریکہ کے پروگرام، ’انڈیپینڈنس ایونیو‘ میں بات کرتے ہوئے تجزیہ کار فاروق حسنات نے کہا کہ طالبان کسی ایک گروہ کا نہیں، کئی گروہوں کا نام ہے۔ طالبان سے مذاکرات کی بات ان عناصر کو الگ کر دے گی جو پاکستانی آئین کے اندر رہتے ہوئے بات چیت نہیں چاہتے ۔ اور پھر ان کے خلاف کوئی بھی فوجی کارروائی کرنا آسان ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا ریجن کی ساری آبادی طالبان نہیں ہے ، ان سب کے خلاف کوئی فوجی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔ اس بات کے شواہد سامنے آچکے ہیں کہ ڈرون حملے پاکستانی انتطامیہ کی ایما پر ہوتے رہے ہیں اور ممکنہ طور پر آج کا حملہ بھی اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔
فاروق حسنات کا کہنا تھا کہ واشنگٹن اس وقت یہ سوچ رہا ہے کہ پاکستان کو ان عناصر سے بات چیت ضرور کرنی چاہئے جو 2014میں افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کی راہ میں مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ اور انہیں اس بات پر قائل کرنا چاہئے کہ وہ دو ہزار چودہ کے بعد افغانستان میں حکومت سازی کے عمل میں شامل ہوکراستحکام اور امن کو فروغ دیں اور خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہونے سے روکیں۔
صوبہ خیبر پختون خواہ کے وزیر اعلی پرویز خٹک کے ترجمان شیراز پراچہ کا کہنا تھا کہ ابھی تحریک انصاف کی کور کمیٹی کا اجلاس ہو رہا ہے ۔ ممکنہ طور پر پارٹی کی جانب سے اگلی حکمت عملی کا اعلان کل تک کیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں خیبر پختون خواہ میں امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے پہلے ہی انتظامیہ ہائی الرٹ پر ہے ۔ اور تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی کوشش ہے کہ صوبے میں امن و امان کی صورتحال کو مزید خراب ہونے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔
وائس آف امریکہ کی پشتو سروس ، ڈیوا کے چیف نفیس ٹکر نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان کے دورہ امریکہ کے دوران پاکستان کو امریکہ کی طرف سے ایسی کوئی یقین دہانیاں نہیں کروائی گئی تھیں کہ ڈرون حملے بند یا معطل کئے جائیں گے۔ بلکہ وائٹ ہاؤس کے ترجمان کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ ڈرون حملے پاکستان کی سلامتی کے لئے ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک پاکستان اور افغانستان میں عدم استحکام پیدا کرنے والے عناصر موجود رہیں گے۔ڈرون حملوں کا سلسلہ رکنا مشکل نظر آتا ہے ۔ تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کے گزشتہ روز کے اس بیان پر کہ اگر مذاکراتی عمل کے دوران ڈرون حملے ہوا تو نیٹو سپلائی روٹ بند کر دیا جائے گا۔
نفیس ٹکر کا کہنا تھا کہ اس بیان پر تحریک انصاف کی قیادت کو اندرونی طور پر بھی تنقیدکا سامنا کرنا پرا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ قانونی طور پر خارجہ پالیسی کا یہ معاملہ اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان ہے،کسی صوبے کی حکومت کے دائرہ اختیار میں نہیں ۔۔لیکن احتجاج کے طور پر نیٹو سپلائی صرف تحریک انصاف نہیں ، کوئی بھی چند سو آدمی سڑک بند کرکے کر سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ جب گزشتہ سال سلالہ کے واقعے کے بعد پاکستانی حکومت نے نیٹو سپلائی روٹ بند کیا تھا تو پاکستانی روپے کی قیمت گر گئی تھی۔۔اور دباؤ صرف امریکہ نہیں ، بلکہ پاکستان پربھی بہت تھا۔
فاروق حسنات کا کہنا تھا کہ واشنگٹن اس وقت یہ سوچ رہا ہے کہ پاکستان کو ان عناصر سے بات چیت ضرور کرنی چاہئے جو 2014میں افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کی راہ میں مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ اور انہیں اس بات پر قائل کرنا چاہئے کہ وہ دو ہزار چودہ کے بعد افغانستان میں حکومت سازی کے عمل میں شامل ہوکراستحکام اور امن کو فروغ دیں اور خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہونے سے روکیں۔
صوبہ خیبر پختون خواہ کے وزیر اعلی پرویز خٹک کے ترجمان شیراز پراچہ کا کہنا تھا کہ ابھی تحریک انصاف کی کور کمیٹی کا اجلاس ہو رہا ہے ۔ ممکنہ طور پر پارٹی کی جانب سے اگلی حکمت عملی کا اعلان کل تک کیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں خیبر پختون خواہ میں امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے پہلے ہی انتظامیہ ہائی الرٹ پر ہے ۔ اور تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی کوشش ہے کہ صوبے میں امن و امان کی صورتحال کو مزید خراب ہونے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔
وائس آف امریکہ کی پشتو سروس ، ڈیوا کے چیف نفیس ٹکر نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان کے دورہ امریکہ کے دوران پاکستان کو امریکہ کی طرف سے ایسی کوئی یقین دہانیاں نہیں کروائی گئی تھیں کہ ڈرون حملے بند یا معطل کئے جائیں گے۔ بلکہ وائٹ ہاؤس کے ترجمان کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ ڈرون حملے پاکستان کی سلامتی کے لئے ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک پاکستان اور افغانستان میں عدم استحکام پیدا کرنے والے عناصر موجود رہیں گے۔ڈرون حملوں کا سلسلہ رکنا مشکل نظر آتا ہے ۔ تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کے گزشتہ روز کے اس بیان پر کہ اگر مذاکراتی عمل کے دوران ڈرون حملے ہوا تو نیٹو سپلائی روٹ بند کر دیا جائے گا۔
نفیس ٹکر کا کہنا تھا کہ اس بیان پر تحریک انصاف کی قیادت کو اندرونی طور پر بھی تنقیدکا سامنا کرنا پرا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ قانونی طور پر خارجہ پالیسی کا یہ معاملہ اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان ہے،کسی صوبے کی حکومت کے دائرہ اختیار میں نہیں ۔۔لیکن احتجاج کے طور پر نیٹو سپلائی صرف تحریک انصاف نہیں ، کوئی بھی چند سو آدمی سڑک بند کرکے کر سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ جب گزشتہ سال سلالہ کے واقعے کے بعد پاکستانی حکومت نے نیٹو سپلائی روٹ بند کیا تھا تو پاکستانی روپے کی قیمت گر گئی تھی۔۔اور دباؤ صرف امریکہ نہیں ، بلکہ پاکستان پربھی بہت تھا۔