ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟

اس سب منظر میں میری دلچسپی کچھ عجیب سی تھی کیونکہ میری سمجھ سے باہر تھا کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے؟ کیا بس خراب ہو گئی ہے یا اس کا ٹائر پنکچر ہوگیا ہے؟
امریکہ آئے ابھی کچھ ہی روز گزرے تھے کہ پہلی بار بس میں سفر کرنے کا موقع ملا۔ میں بس میں چڑھی اور سامنے نظر آنے والی دو سیٹیں خالی دیکھتے ہی ان پر براجمان ہو گئی۔ ایک دو سٹاپس کے بعد بس رکی تو مجھے محسوس ہوا کہ بس جیسے نیچے بیٹھ رہی ہو، اسی اثنا میں بس کا دروازہ کھلا اور دروازے کے نیچے سے ایک ٹرے نما سی شے باہر کو نکلی اور میں نے خاتون ڈرائیور کو دروازے کی طرف بھاگتے ہوئے دیکھا۔ اس سب کے دوران بس سے نیچے اترنے اور اوپر چڑھنے والے مسافروں میں سے کوئی بھی اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوا۔

اس سب منظر میں میری دلچسپی کچھ عجیب سی تھی کیونکہ میری سمجھ سے باہر تھا کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے؟ کیا بس خراب ہو گئی ہے یا اس کا ٹائر پنکچر ہوگیا ہے؟ میری نگاہیں دروازے کی جانب ٹکی تھیں، تجسس اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا کہ اتنے میں ایک تین پہیوں والی وہیل چئیر خود بخود چلتے ہوئے بس میں داخل ہوئی، اس پر ایک خاتون بیٹھی تھیں۔ ڈرائیور اس خاتون کے لیے راستہ بناتے ہوئے اسے اس نشست تک لے آئی جہاں میں بیٹھی تھی اور مجھے اٹھنے کا حکم دیا۔ میں فوراً ہی بنا کوئی سوال کیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ نشست چھوڑتے ہی میری نظر اس سیٹ کے پیچھے بس کی دیوار پرچسپاں ایک پوسٹر پر پڑی جس پرتحریر تھا کہ یہ سیٹیں معذور اور ضعیف افراد کے لیے مختص ہیں اور ان کے لیے ان پر بیٹھے افراد انہیں فوراً خالی کر دیں۔ جیسے ہی میں سیٹ سے اٹھی وہ تہہ ہو کر پیچھے بس کی دیوار کے ساتھ جا لگی اور ڈرائیور نے اس معذور خاتون کی وہیل چئیر وہاں لا کر لاک کر دی۔

جیسے ہی وہیل چئیر لاک ہوئی بس میں سے مسافروں نے چڑھنا اور اُترنا شروع کر دیا اور ڈرائیور اپنی سیٹ پر واپس چلی گئی۔ چند لمحوں بعد بس چل پڑی مگر اس خاتون کی وہیل چئیر کو بس کے جھٹکوں نے ذرا سا بھی ٹس سے مس نہ ہونے دیا۔ یہ ساری مشق اس معذور خاتون کے بس سے اترنے پر پھر سے دوہرائی گئی۔

اس کے بعد میرے لیے یہ روز کا معمول بن گیا تھا۔ کبھی بس میں تو کبھی ٹرین میں میں روزانہ یہ سب ہوتے دیکھتی۔ اس کے علاوہ بڑی بڑی عمارتوں، سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، بڑے سٹوروں کے باہر مجھے ایک بڑا سا بٹن نظر آتا، اس پر بھی وہیل چئیر کا نشان بنا ہوتا۔ میرا دل چاہتا تھا کہ میں دیکھوں آخر یہ بٹن ہے کیا اور اسے دبانے سے ہوتا کیا ہے؟ بالآخر ایک دن ہمت کرکے میں نے اپنی ہی یونیورسٹی کے باہر لگے بٹن کو دبا ڈالا۔ دل ڈرا بھی کہ کہیں کوئی سائرن ہی نہ بج جائے مگر جیسے ہی میں نے اسے دبایا تو یونیورسٹی کے اندر جانے والا دروازہ خود بخود کھل گیا۔ اور میں بھاگ کر اس سے گزر کر اندر چلی گئی۔

اس کے بعد میں دیکھا کہ مختلف اوقات میں یونیورسٹی کے جسمانی معذور طلبہ جو وہیل چئیرز پر آتے ہیں وہ اسی بٹن کی مدد سے یونیورسٹی کے اندر آتے اور باہر جاتے ہیں۔ بٹن کے علاوہ امریکہ میں بنی ہر عمارت کے باہر وہیل چئیر کے لیے مخصوص راہ داری بنائی گئی ہے۔ پھر پبلک ٹوائلٹس میں بھی ان کے لیے بنائے گئے ٹوائلٹس اتنے بڑے ہیں کہ ان کی وہیل چئیر باآسانی اندر جاسکے۔ اور تو اور پارکنگ لاٹس میں ان افراد کے لیے جگہ مختص ہے اور اگر میں یا آپ اس جگہ پر گاڑی پارک کر دیں تو اس کا جرمانہ سینکڑوں ڈالر کی صورت میں ادا کرنا پڑے اور اس میں کوئی مک مکا نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں البتہ امریکہ میں معذور افراد کو نوکری ملنا ذرا مشکل کام ہے۔ امریکہ میں معذور افراد کو تحفظ دینے والے ایک ادارے آلسپ‘ کی رپورٹ کے مطابق 2012ء میں امریکی معیشیت کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے سبب معذور افراد کی بے روزگاری عام افراد سے 75 فیصد زیادہ تھی۔

آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ کیا میں کسی دیہات سے اٹھ کر امریکہ آئی تھی۔۔۔ مگر میں نے کیا شاید آپ نے بھی کبھی پاکستان میں ایسا کچھ نہیں دیکھا ہوگا اب تک۔ مجھے تو بس کچھ نابینا لوگ یاد ہیں جو یا تو سفید چھڑی سنبھالے آنکھوں پر کالی عینک چڑہائے فٹ پاتھ پر کھڑے ٹریفک کا شور سن کر سڑک پار کرنے کے وقت کا تعین کرتے تھے اور یا پھر انتظار کرتے ہیں کہ کوئی ان کی حالت دیکھ کر ان پر رحم کھائے اور ان کو سڑک کے دوسرے کنارے تک چھوڑ آئے۔

مجھے وہ نوجوان بھی یاد آتا ہے جو بچپن میں پولیو وائرس کے ہاتھوں زندگی بھر کے لیے وہیل چئیر اور بیساکھیوں کے سہارے زندگی گزارنے پر مجبور ہوگیا۔ اس نوجوان پر میں نے ایک ٹی وی رپورٹ بنائی تھی اور انٹرویو میں اس کی یہ بات مجھے وقتی طور پر بہت تکلیف دہ لگی جب اس نے کہا کہ میں معذوروں کے اولمپکس میں تو شرکت کرتا ہوں دوسرے ممالک میں جا کر مگر اپنے ملک میں، میں کبھی اپنے کپڑے یا ضرورت کی اشیاء خریدنے بازار نہیں گیا یہاں تک کہ عید سے پہلے بھی نہیں۔ کیونکہ چاند رات پر بھی میری وہیل چئیر دکانوں کی سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتی۔ اس کی اس بات نے اس وقت مجھے دکھی تو کیا مگر میں کچھ دن بعد ہی اسے بھول گئی کیونکہ شاید میں بھی اپنے باقی ہم وطنوں کی طرح ایسے معذور افراد کے لیے ایک روایتی سوچ ہی رکھتی تھی۔

مگر یہاں آکر مجھے اس نوجوان کی تکلیف کا اندازہ ہوا کہ وہ اور اس جیسے اور بہت سے ایسے لوگ کتنا کچھ کر سکتے ہیں، وہ کسی کی محتاجی سے بچ سکتے ہیں، آزاد اور کھلی فضا کو ان کے لیے کیوں محدود کر دیا گیا ہے؟

پاکستان میں، میں نے ہمیشہ یہ دیکھا کہ معذور افراد کو یا تو ترس اور یا پھر مزاح کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ہاں انفرادی طور پر ہمارے معاشرے کے کچھ افراد ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور انہیں خود مختار بنانے میں ان کی مدد بھی کرتے ہیں مگر حُکومتی سطح پر ان پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔

مجھے یاد ہے، پنجاب اسمبلی کے ایک رکن ِاسمبلی اپنی وہیل چئیر پر آیا کرتے تھے، اسمبلی کے احاطہ میں بنی درجنوں سیڑھیوں کے قریب وہ اپنی وہیل چئیر سے اتر کر بیساکھیوں کے سہارے سیڑھیاں عبور کرتے اور ان کے ملازم ان کی وہیل چئیر سیڑھیوں کے پار لیجانے جیسا مشکل کام روزانہ ہی کیا کرتے۔ مجھے اندازہ تھا کہ خود ان کے لیے بیساکھیوں کے سہارے اوپر چڑھنا کتنا مشکل ہوجایا کرتا تھا کبھی کبھار۔ مگر۔۔۔ انہوں نے بھی کبھی معذوروں کے حوالے سے اسمبلی کے فورم پر کوئی بات نہیں کی تھی۔ کیا ہمارے پاکستان میں معذور افراد کو بنیادی حقوق دینا بہت مشکل کام ہے؟ کیا حکومتی خزانے میں ایسے افراد کے لیے کوئی رقم نہیں جو ان کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے خرچ کی جاسکے؟

پاکستان کی ایک غیر سرکاری تنظیم ’ہیلپنگ ہینڈ فار ریلیف اینڈ ڈویلپمنٹ‘ کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں 50 لاکھ افراد مختلف طرح کی معذوری کا شکار ہیں مگر کچھ اداروں کے اعداد و شمار کہتے ہیں کہ ملک میں معذوروں کی تعداد کل آبادی کا 10 سے 12 فیصد ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ان معذور افراد کے لیے حکومتی سطح پر نوکریوں میں صرف 2 فیصد کوٹہ رکھا جاتا ہے مگر نوکریاں اس سے بھی کم افراد کی قسمت میں آتی ہیں۔ اور ان بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے پاکستان میں اب تک کوئی قانون نہیں بنایا گیا۔