غزہ میں جاری جنگ میں شدت آنے کے ساتھ قطر کے مرکزی شہر دوحہ میں قائم حماس کے دفتر پر بھی گہری نظر رکھی جا رہی ہے جس کا نتیجہ اس خلیجی ملک اور فلسطینی عسکریت پسندوں کے درمیان تعلقات کا از سر نو جائزہ لینے کی شکل میں نکل سکتا ہے۔
حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہانیہ ایک عرصے سے دوحہ میں مقیم ہیں، جہاں وہ غیرملکی سفارت کاروں سے ملاقاتیں اور فلسطینی نواز مظاہروں سے خطاب بھی کرتے ہیں۔
مشرق وسطی کے تجزیہ نگار اندریاس کریگ، جو 2013 سے 2016 تک قطر میں مقیم رہے، کہتے ہیں کہ دوحہ کو حماس کے ساتھ تعلقات میں کمی لانا ہو گی۔
"میں سمجھتا ہوں کہ اس تعلق میں کوئی کمی ہو گی جس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ امریکی انتظامیہ کیا کہتی ہے۔"
خیال رہے کہ حماس کے عسکریت پسندوں نے سات اکتوبر کو غزہ کی پٹی سے اسرئیل پر حملہ کیا تھا جس میں اسرائیلی حکام کے مطابق اب تک 1400 اموات ہو چکی ہیں اور 200 کے لگ بھگ شہریوں کو یرغمال بنایا گیا ہے۔
دوسری طرف غزہ میں اسرائیل کی جوابی کارروائی میں بمباری سے اب تک حماس کے زیرانتظام وزات صحت کے مطابق 3700 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہوچکے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس سے قبل قطر اسرائیل اور حماس کے درمیان در پردہ سفارت کاری کرتا رہا ہے اور بات چیت کے چینل کھلے رکھنے سے قطر نے اسرائیل اور حماس میں قیدیوں کے تبادلے میں بھی کردار ادا کیا ہے۔
اسرائیل نے عسکریت پسند گروپ حماس کا خاتمہ کرنے کی غرض سے غزہ پر بمباری کی ہے جب کہ قطر کے قریبی حلیف امریکہ کی کوشش ہے کہ اس گروپ کو کمزور کر دیا جائے۔
واشنگٹن نے بدھ کے روز یہ کہتے ہوئے حماس کے دس کارندوں پر پابندیاں عائد کیں ہیں کہ وہ غزہ، ترکیہ اور الجیریا میں عسکریت پسند گروپ حماس کی مالی اعانت کرنے میں سہولت کار ہیں۔ ان میں قطر میں مقیم ایک سینئر عہدے دار عبدالدائم نصراللہ بھی شامل ہیں۔
ایک قطری عہدے دار نے اے ایف پی کو بتایا کہ امریکی حکومت کی درخواست اور معاونت سے 2012 میں بات چیت کا چینل کھولنے کے لیے دوحہ میں حماس کا سیاسی دفتر قائم کیا گیا تھا جسے کئی امریکی حکومتوں کی معاونت سے اسرائیل اور غزہ کے درمیان صورت حال میں استحکام لانے کے لیے استعمال کیا۔
SEE ALSO: حماس فنڈز کیسے جمع کرتی ہے؟اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے قطر نے افغان طالبان کو دوحہ میں اپنا سیاسی دفتر کھولنے کی دعوت دی تھی۔ اس اقدام کو اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما کی تائید حاصل تھی۔
لیکن گزشتہ ہفتے قطرکے دورے کے دوران امریکہ کے وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے خلیجی ریاست کو حماس کے ساتھ قریبی تعلقات کے معاملے پر خبر دار کیا تھا۔
یاد رہے کہ دوحہ میں حماس کا دفتر از خود جلاوطنی اختیار کرنے والے حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ کی رہائش گاہ بھی ہے۔
اعلی ترین امریکی سفارت کار بلنکن نے کہا ہے کہ اب حماس کے ساتھ معمول کی طرح کام نہیں کیا جاسکتا۔
یاد رہے کہ قطر کئی برسوں سے غزہ کی پٹی میں مالی امداد فراہم کرتا رہا ہے۔ حکام کا کہنا ہےکہ اس امداد کی فراہمی اسرائیل، اقوام متحدہ اور امریکہ کے ساتھ باہمی تعاون کے ذریعہ عمل میں آتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
قطر کے وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمان الثانی نے ملک میں حماس کے دفتر کی موجودگی کا دفاع کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ خطے میں بات چیت اور امن قائم کرنے کا ایک طریقہ ہے۔
لیکن تجزیہ کار کریگ کہتے ہیں کہ اس ضمن میں یہ ضروری ہے کہ قطر اور حماس کے رہنما ہانیہ کے درمیان کچھ فاصلہ ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ دوحہ حماس کے دفتر کی میزبانی جاری رکھ سکتا ہے لیکن قطر کو حماس کی قیادت اور قطر کے پالیسی سازوں کے درمیان فاصلہ رکھنے کی ضرورت ہے۔
ترجیحات کا تعین
قطر میں اس وقت مشرق وسطی میں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ موجود ہے اور واشنگٹن نے سعودی عرب اور دوسرے ہمسایہ ممالک کی جانب سے قطر کی ناکہ بندی کے دوران دوحہ کا ساتھ دیا تھا۔
مشرق وسطیٰ کے امور کی تجزیہ کار صنم وکیل کہتی ہیں کہ یہ چیز قطر کے ساتھ ے تعلقات کی واضح ترجیحات بنا ہے۔
واشنگٹن کے لیے یہ اہم کہ اس کے ایک حلیف کے پاس پس پردہ روابط کی اہلیت ہو۔
تھنک ٹینک چیٹم ہاؤس کے مشرق وسطی پروگرام کی ڈائریکٹر صنم وکیل کہتی ہیں کہ قطر متوقع طور پر حماس کے ساتھ اپنے تعلقات کا از سر نو جائزہ لے گا اور کچھ عرصے کے بعد اس تعلق میں فاصلہ قائم کر لے گا۔
SEE ALSO: حماس کا حملہ داعش کی سطح کی وحشیانہ کارروائی ہے، امریکی محکمہ دفاعتاہم ان کا کہنا ہے کہ اس کے لیے ایک اہم نقطہ یہ ہوگا امریکہ اور بین الاقوامی برادری کے پاس ایسا منصوبہ ہو جو فلسطینیوں کے حق رائے دہی کے مسئلے کو حل کرسکے۔
قطر میں حماس کا سیاسی دفتر 2011 کی عرب اسپرنگ کی بغاوتوں کی تحریکوں کے بعد بنایا گیا تھا۔ ماہر کریگ کے مطابق امریکہ کو خطرہ تھا کہ فلسطینی گروپ ایران اور لبنان میں اپنے اڈے بنا سکتا تھا۔
اس وقت حماس کے رہنماؤں کو دوحہ سے نکالنے سے ایک ایسی ہی صورت حال پیدا ہو گی جس میں مغربی حکومتیں ان کی مکمل نگرانی اور کنٹرول سے محروم ہو جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ یہ یقینی بنا رہا ہے کہ قطری ایرانیوں سے بات چیت کر سکیں اور کام کرنے کے متبادل راستے متعین کر سکیں۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ یہ بھی یقینی بنانا چاہتا ہے کہ ایسا کرنے سے سب کچھ ہی ختم نہ ہو جائے۔
(اس خبر سے کے لیے کچھ مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے)