|
فلسطینی تنظیم حماس نے جمعرات کو کہا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ ہونے والے غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کے معاہدے پر قائم ہے۔ اس سے قبل اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے فلسطینی عسکریت پسند تنظیم پر معاہدے کے کچھ حصوں سے پیچھے ہٹنے کا الزام لگایا تھا۔
نیتن یاہو کے دفتر سے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ حماس آخری لمحات میں "رعایتیں" حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
بیان میں حماس پر یہ الزام بھی لگایا تھا کہ وہ اس سمجھوتے سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔
نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ دونوں اطراف میں طے پانے والا سمجھوتہ اسرائیل کو ویٹو اختیار دیتا ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ قتل کے مرتکب کن فلسطینی قیدیوں کو حماس کی قید میں یرغمالوں کے بدلے رہا کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ امریکہ نے حماس کو ایک دہشت گرد گروپ قرار دے رکھا ہے۔
SEE ALSO: غزہ جنگ بندی معاہدہ کرانے والوں میں کون کون شامل تھا؟اسرائیلی بیان کے تھوڑی ہی دیر بعد حماس کے ایک سینئر عہدیدار عزت الرشق نے کہا کہ عسکریت پسند گروپ ثالثوں کے اعلان کردہ جنگ بندی کے معاہدے پر قائم ہے۔
نیتن یاہو نے کہا کہ ان کی کابنیہ اس معاہدے کی منظوری کے لیے اس وقت تک اپنا اجلاس نہیں بلائے گی جب تک حماس معاہدے کی تمام باتوں کو تسلیم نہیں کر لیتا۔
تاہم میڈیا کی اطلاعات کے مطابق اسرائیلی کابینہ کل جمعے کو اس پر غور کرے گی۔
واضح رہے کہ کئی ماہ کے مشکل مذاکرت کے بعد قطر میں اعلان کردہ معاہدہ اگر مکمل طور پر منظور ہو جاتا ہے تو یہ اتوار سے نافذ العمل ہوگا۔
امریکہ، مصر اور قطر کی ثالثی کی کوششوں کے بعد ہونے والا جنگ بندی کا یہ معاہدہ کئی مراحل پر محیط ہوگا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اقوام متحدہ کی امدادی ایجنسیوں نے کہا ہے کہ اگر جنگ بندی ہو جاتی ہے تو وہ غزہ میں فلسطینیوں کے لیے انسانی امداد میں اضافے کے لیے تیار ہیں۔ عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ غزہ کی 23 لاکھ کی آبادی میں سے کم از کم 19 لاکھ جنگ سے بے گھر ہو چکے ہیں۔
اس کے علاوہ 92 فیصد رہائشی یونٹس تباہ ہو چکے ہیں۔
SEE ALSO: اسرائیل حماس معاہدہ: فلسطینیوں کا جشن، یرغمالوں کے خاندانوں کا اظہار تشکراسرائیل کے صدر آئزک ہرزوگ نے بدھ کے روز ہونے والے جنگ بندی کے اعلان کے بعد اس کے لیے اپنی بھرپور حمایت کا اظہار کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ بطور صدر "میں واضح الفاظ میں کہتا ہوں: یہ درست اقدام ہے۔"
"یہ ایک اہم اقدام ہے۔ یہ ایک ضروری اقدام ہے۔ ہمارے بیٹوں اور بیٹیوں کو ہمارے پاس واپس لانے سے بڑھ کر کوئی اخلاقی، انسانی، یہودی یا اسرائیلی ذمہ داری نہیں ہے ۔ چاہے انہیں ان کے گھروں میں واپس لوٹایا جائے یا پھر انہیں سپرد خاک کر دیا جائے۔
ادھرحکومت میں شامل اس معاہدے کے ایک بڑے مخالف وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ نے اسے "ریاست اسرائیل کی قومی سلامتی کے لیے ایک برا اور خطرناک معاہدہ" قرار دیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
معاہدے کے پہلے مرحلے میں 42 روزہ جنگ بندی شامل ہوگی جبکہ غزہ سے 33 یرغمالوں کی رہائی اور اسرائیل سے فلسطینی قیدیوں کی رہائی ہو گی۔
اس معاہدے میں غزہ سے اسرائیلی فوج کا مرحلہ وار انخلا اور فلسطینی شہریوں کے لیے امداد کی فراہمی میں اضافہ بھی شامل ہیں۔
آخری مرحلہ غزہ کی تعمیر نو سے متعلق ہے، جس میں ایک نیا گورننگ اور سیکورٹی ڈھانچہ شامل ہو گا۔
غزہ میں جنگ سات اکتوبر 2023 کو اس وقت چھڑی جب عسکریت پسند تنطیم حماس نے، جسے امریکہ اور بعض یورپی ملکوں نے دہشت گرد گروپ نامزد کیا ہے، اسرائیل کے جنوبی علاقوں پر حملہ کردیا۔
اسرائیلی حکام کے مطابق حماس کے حملے میں 1,200 تقریباً لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ حماس نے تقریباً 250 افراد کو یرغمال بنا لیا اور انہیں غزہ لے گئے۔
اس کے ردعمل میں اسرائیل نے غزہ پر حملے شروع کیے جن میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ غزہ میں حماس کے تحت محکمہ صحت کے حکام کے مطابق اب تک 46,000 فلسطینی ہلاک ہوگئے ہیں، پٹی پر رہنے والے 90 فیصد لوگ بے گھر ہوگئے۔ نتیجتاً غزہ میں ایک بڑے انسانی المیے نے جنم لیا اور لوگوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات ملنا مشکل ہوگئیں۔
(اس خبر میں شامل معلومات اے پی، اے ایف پی اور رائٹرز سے لی گئی ہیں)