|
حماس کے ایک عہدیدار نے پیر کے روز کہا کہ قاہرہ میں غزہ جنگ بندی کے نئے مرحلے کے مذاکرات میں ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
مصر کی میزبانی میں ہونے والے ان مذاکرات میں اسرائیل، قطر اور امریکی نمائندوں نے بھی شرکت کی۔
مغربی طاقتیں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ایک چھوٹے اور گنجان آباد علاقے غزہ میں بہت بڑے پیمانے پر عام شہریوں کی ہلاکتوں اور امداد کی محدود ترسیل کے نتیجے میں بڑھتے ہوئے انسانی بحران پر غم و غصے کا اظہار کر رہی ہیں۔
ہفتے کے روز امریکہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز کی آمد کے بعد اسرائیل اور حماس نے اتوار کو اپنی مذاکراتی ٹیمیں مصر بھیجیں۔
SEE ALSO: غزہ جنگ بندی مذاکرات میں 'مناسب پیش رفت' کی اطلاعاتامریکی عہدے دار کی آمد اس جانب اشارہ ہے کہ ایک ایسے معاہدے کے لیے امریکی دباؤ بڑھ رہا ہے، جس کے نتیجے میں غزہ میں قید یرغمالی اپنے گھروں کو واپس جا سکیں اور غزہ کی پٹی میں پھنسے ہوئے فلسطینیوں کے لیے امداد کی فراہمی بہتر ہو سکے۔
حماس کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر رائٹرز کو بتایا کہ صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور مذاکرات میں ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
اس سے قبل پیر ہی کو مصر میں دو سیکیورٹی ذرائع اور سرکاری کنٹرول کے اخبار القاہرہ نے کہا تھا کہ مذاکرات میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔
SEE ALSO: غزہ میں لڑائی کے چھ ماہ؛ کیا فوری جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی ممکن ہے؟ذرائع اور اخبار القاہرہ کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں شرکت کرنے والے وفود قاہرہ سے چلے گئے ہیں اور توقع ہے کہ 48 گھنٹوں کے اندر بات چیت دوبارہ شروع ہو سکتی ہے۔
ثالثی کی کوششوں سے آگاہ ایک فلسطینی اہل کار نے رائٹرز کو بتایا کہ جنگ کے خاتمے، اسرائیلی فورسز کی غزہ سے واپسی، تمام فلسطینیوں کو اپنے گھروں میں واپسی کی اجازت دینے اور 17 سال سے جاری ناکہ بندی کے خاتمے پر اسرائیل کی جانب سے تعطل برقرار ہے۔
اسرائیل نے فوری جنگ ختم کرنے یا غزہ سے مکمل انخلا کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی افواج اس وقت تک پیچھے نہیں ہٹیں گی جب تک غزہ پر حماس کا کنٹرول ختم نہیں ہو جاتا۔
(اس رپورٹ کے لیے معلومات رائٹرز سے لی گئیں ہیں)