پاکستان کے ایک معروف ٹیلی ویژن اینکر حامد میر کے خلاف انٹیلی جنس ادارے ’آئی ایس آئی‘ کے سابق مقتول افسر خالد خواجہ کے اغوا کا مقدمہ درج کیے جانے پر ملک میں صحافیوں کی مختلف تنظیموں کے عہدیداروں کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ خالد خواجہ کو پاکستان کے قبائلی علاقے وزیرستان میں 2010 میں قتل کیا گیا تھا۔
خالد خواجہ کی اہلیہ شمائما ملک کی درخواست پر گزشتہ اختتام ہفتہ حامد میر کے علاوہ پاکستانی طالبان ایک کمانڈر عثمان پنجابی کے خلاف درج کروایا گیا۔ شمائما ملک کی درخواست میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ مقدمہ درج کرنے کی ہدایت کی تھی۔
مقدمہ درج کرنے کی خبر جب سامنے آئی تو حامد میر نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹوئیٹر پر اپنے پیغام کہا کہ یہ سات سال پرانا مقدمہ ہے اور اُن کے بقول 2010 اُنھیں عدالت اس مقدمے میں بے گنا قرار دے چکی ہے۔
حامد میر کا موقف ہے کہ یہ مقدمہ اُن کی آواز دبانے کے لیے درج کیا گیا ہے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق سیکرٹری جنرل امین یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس معاملے تفتیش ضروری ہے۔
’’یہ مقدمہ بہت پرانا ہے تو اچانک اتنے سال کے بعد اگر یہ چیز سامنے آئی ہے تو اس کے یقیناً کوئی نا کوئی مقاصد ہو سکتے ہیں ۔۔۔۔ کیا مقاصد ہیں، کون سے عوامل ہیں وہ سب ہمارے سامنے آنا چاہیئے ۔۔۔۔ تاکہ اس کو اسی طرح سے قانونی لحاظ سے دفاع کیا جا سکے۔‘‘
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر علی ظفر کہتے ہیں کہ اتنی تاخیر سے مقدمہ درج کروانے کی ٹھوس وجہ بتانی ہو گی۔
’’اگر دیر ہوئی ہے تو اس کی وضاحت کرنی پڑتی ہے کہ دیر کیوں ہے اگر دیر اس وجہ سے ہے کہ پولیس اس کو رجسٹرڈ نہیں کر رہی تھی اور شکایت کنندہ کوشش کر رہے تھے کہ ایف آئی آر رجسٹرڈ ہو ۔۔۔ تو پھر آپ کہہ سکتے ہیں کہ شکایت کنندہ کا قصور نہیں ہے ۔۔۔ لیکن اگر کوئی ویسے ہی سوتا رہا ہو سات سال بعد یا آٹھ سال بعدایف آئی آر درج کروائے تو اس کو وضاحت کرنی پڑے گی کہ سات آٹھ سال کیوں چپ رہے۔‘‘
علی ظفر کا کہنا تھا کہ عموماً جس کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جاتی ہے اس کے لیے مسائل شروع ہو جاتے ہیں۔
’’ جو قانون کہتا ہے وہ تو یہ کہتا ہے کہ ایف آئی آر رجسٹرڈ ہونے کے بعد تفتیش ہو گی اور پھر مسائل شروع ہوں گے کسی کے خلاف اگر واقعی ہی ایف آئی آر میں حقائق ہوں۔۔۔ لیکن عموماً ہم نے دیکھا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایف آئی آر ہو گئی تو پھر آپ گرفتار بھی کریں اور تفتیش (کا آغاز) گرفتار کرنے کے بعد کریں تو عموماً مشکلات ایف آئی آر کی رجسٹریشن پر ہی شروع ہو جاتی ہیں۔۔۔۔ لیکن اگر آپ قانون کے دائرے میں رہ کر دیکھیں تو پھر یہ مشکلات صرف تفتیش کے بعد ہی شروع ہونی چاہیئں۔‘‘
پاکستان کا شمار صحافیوں کے لیے خطرناک ترین تصور کیے جانے والے ملکوں میں ہوتا ہے اور گزشتہ ایک دہائی میں درجنوں صحافی اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے مارے جا چکے ہیں۔
اکتوبر کے اواخر میں اسلام میں انگریزی روزنامے ’دی نیوز‘ سے وابستہ صحافی احمد نورانی نامعلوم افراد کے حملے میں شدید زخمی ہو گئے تھے جب کہ اس سے قبل اکتوبر ہی کے مہینے میں صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی میں ایک صحافی ہارون خان کو اُن کے گھر کے باہر گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔
صحافیوں پر ہونے والے ایسے حملوں کے بارے میں شعبہ صحافت سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد صحافیوں میں خوف پیدا کرنا ہے تاکہ وہ غیر جانبدارانہ رہ کر اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیاں انجام نہ دے سکیں۔