پیتل اور المونیم کے ظروف ناپید ہونے کے قریب

ان دکانوں میں مختلف دھاتوں سے بنائے گئے شاہکاروں پر نقش نگاری کا کام انتہائی مہارت سے کیا جاتا ہے۔

بعض دکانوں کے مالکان کا کہنا ہے کہ کسی زمانے میں ان ظروف اور فن پاروں کے قدر دان ہوا کرتے تھے البتہ اب ان کا استعمال متروک ہوتا جا رہا ہے۔

بعض دکانوں کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں ہر مذاہب کے مقدس نشانات اور مورتیاں بھی رکھی ہوئی ہیں۔

دکان داروں کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ پیتل، المونیم یا دیگر دھاتوں سے ظروف سازی کی دکانیں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔

دکانوں کے مالکان کے مطابق یہ کام ان کے آباؤ اجداد سے ان تک منتقل ہوا ہے۔

دکان دار کہتے ہیں کہ ہندوستان کی تقسیم سے قبل ان کے دادا یا پر دادا یہ تمام کام چاندی پر کرتے تھے۔ بعد میں یہ دھات پیتل اور  تانبے میں تبدیل ہو گئی۔

کراچی شہر میں بڑی تعداد میں بسنے والے سکھ، مسیحی، پارسی، ہندو اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو اپنی مطلوبہ مذہبی اشیا انہی دکانوں میں دستیاب ہوتی ہے۔

بعض دکان دار دعویٰ کرتے ہیں کہ یہاں پر بننے والی اشیا نایاب ہوتی ہیں۔ انہیں بیرونِ ملک برآمد بھی کیا جاتا ہے۔

یہ جگہ کراچی میں بین المذاہب ہم آہنگی کی ایک پہچان رکھتی ہے۔

دکانداروں کے مطابق موجودہ حالات میں ان شاہ کاروں کی فروخت میں واضح کمی آئی ہے۔