برطانیہ کے شہزادے پرنس ہیری نے نفرت پر مبنی مواد کو نہ روکنے پر سوشل میڈیا کمپنیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے ٹوئٹر کے چیف ایگزیکٹو کو چھ جنوری کو امریکی کانگریس کی عمارت کیپیٹل ہل پر حملے سے پہلے متنبہ کر دیا تھا کہ یہ عمارت سیاسی بدامنی کے لیے استعمال ہو نے والی ہے۔
ہیری نے یہ بات منگل کے روز کیلیفورنیا میں غلط معلومات پر آن لائن پینل میں گفتگو کے دوران کہی۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنے تحفظات سے ٹوئٹر کے چیف ایگزیکٹو جیک ڈورسے کو واشنگٹن میں ہونے والے بلووں سے ایک روز پہلے آگاہ کر دیا تھا۔
ان کے بقول ’’ جیک اور میں چھ جنوری سے پہلے ایک دوسرے کو ایک میل کر رہے تھے اور میں نے انہیں خبردار کیا تھا کہ یہ پلیٹ فارم (ٹوئٹر) ایک بغاوت کو بپا ہونے کی اجازت دے رہا ہے‘‘ ہیری نے یہ بات ’’ ری۔وائرڈ‘‘ ٹیک فورم پر گفتگو کے دوران بتائی۔
ہیری کے بقول یہ میل چھ جنوری کے واقعہ سے ایک دن پہلے بھیجی گئی جس کے بعد آج تک ان کو جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
ٹوئٹر نے ہیری کے تبصرے پر ردعمل دینے سے انکار کر دیا ہے۔
سوشل میڈیا کو اس بات پر سخت تنقید کا سامنا ہے کہ وہ غلط معلومات، سیاسی تشدد کو ہوا دینے والے مواد کو پھیلنے سے روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہا ہے۔
چھ جنوری کو کیپٹل ہل ہر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے دھاوا بولنے کو اس حوالے سے ایک مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ اگر آن لائن نفرت کو پھیلنے کا موقع دیا گیا تو اس کے ایسے نتائج سامنے آئیں گے۔
انتہاپسندانہ نظریات کو پھیلانے کے حوالے سے سوشل میڈیا اس وقت توجہ کا مرکز بنا جب فیس بک کی ایک سابق ملازم فرانسز ہوگن نے امریکہ اور یورپ کے اراکین پارلیمنٹ کو بتایا کہ کمپنی کا الگورتھم سسٹم آن لائن نفرت کو پھیلاتا ہے کیونکہ کمپنی نفع کو تحفظ پر اہمیت دیتی ہے۔
پرنس ہیری نے ایک اور بڑے پلیٹ فارم یوٹیوب کو بھی ہدف بنایا اور کہا کہ کووڈ نائنٹین سے متعلق وہاں موجود ویڈیوز سے متعلق غلط معلومات پھیلاتی رہیں اور ویب سائٹس کی اپنی پالیسیوں کی خلاف ورزی ہونے کے باوجود ان کو نہیں ہٹایا گیا۔
ہیری نے اس سال ایک امریکی تھنک ٹینک ’ آ سپین انسٹیٹیوٹ‘‘ میں بطور کمشنر شمولیت اختیار کی ہے اور وہ آن لائن دستیاب معلومات میں غلط معلومات کا میڈیا کے ضابطوں کے تحت احاطہ کرتے ہیں۔
برطانیہ کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے ہیری اور ان کی اہلیہ، ڈچز آف سسیکس غلط معلومات اور میڈیا کی مداخلت اور نسلی تعصب ہر گفتگو کرتے رہے ہیں۔ ان کے بقول یہ وہ چیزیں ہیں جنہوں نے ان کو شاہی خاندان کے رکن ہونے کے اعزاز سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا اور وہ شمالی امریکہ منتقل ہو گئے۔
SEE ALSO: شاہی محل میں اتنا دباؤ تھا کہ خودکشی تک کا سوچا: میگھن
ہیری کا کہنا ہے کہ غلط معلومات کا پھیلاو اس وقت عالمی بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
’’ میں کئی برسوں تک اس کو ذاتی طور پر محسوس کرتا رہا ہوں اور اب میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ سب کچھ عالمی سطح پر ہو رہا ہے‘‘
منگل کے روز اپنے ریمارکس میں ہیری نے اس رپورٹ کا حوالہ دیا جس میں نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ ان کی اہلیہ میگھن کے لیے جو نفرت آمیز مواد جاری ہوا اس کا ستر فیصد 50 کے لگ بھگ اکاونٹس سے جاری ہوا۔ انہوں نے کہا کہ غلط معلومات زندگیوں کو تباہ کر رہی ہیں۔
ان کے بقول چھوٹے سے گروپ اکاونٹس کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ آن لائن بڑے پیمانے پر افراتفری اور تباہی پھیلائیں اور ان کو کسی سنگین سزا کا خدشہ بھی نہ ہو‘‘
(اس خبر کے لیے مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا)