ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلوں کا تنازع اور عدالتی فیصلہ

فائل

حال ہی میں امریکہ کی ایک وفاقی جج نے ہارورڈ یونیورسٹی پر ایشیائی امریکی طالبعلموں کی درخواستوں کے خلاف امتیازی سلوک سے متعلق ایک مقدمے کا فیصلہ کیا جسے امریکہ بھر میں کالجوں کے داخلے میں ’ایفرمیٹیو ایکشن‘ کے لئے ایک بڑی کامیابی سمجھا جا رہا ہے۔

اس مقدمے پر کافی لوگوں کی نظریں لگی ہوئی تھیں جس میں ’اسٹوڈنٹس فار فیئر ایڈمشنز‘ نامی ایک گروپ نے ہارورڈ یونیورسٹی پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ وہ جان بوجھ کر اور غیر قانونی طور پر ایشیائی امریکیوں کی تعداد کو کم رکھ رہی ہے، تاکہ کیمپس میں ایک خاص نسلی توازن بر قرار رکھا جا سکے۔

تاہم، امریکہ کی ڈسٹرکٹ جج ایلسن بروز نے یہ فیصلہ دیا کہ ہارورڈ میں داخلوں کا مرحلہ ہر لحاظ سے درست نہیں ہے۔ لیکن، آئینی معیار کے مطابق ہے۔ انہوں نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ کسی قسم کے نسلی امتیاز کا ثبوت نہیں ملا اور ایسی کوئی شہادت بھی نہیں ملی کہ داخلے کا کوئی فیصلہ ایشیائی امریکی شناخت کی بنا پر کیا گیا ہو۔

مقدمے کا یہ فیصلہ تین ہفتوں کی سماعت کے بعد سامنے آیا۔ اس مقدمے نے ’ایفرمیٹیو ایکشن‘ کے معاملے پر بحث کو پھر سے جنم دے دیا تھا۔

اس فیصلے سے دوسری یونیورسٹیوں کو عارضی طور پر اطمینان ہوا ہے جو کیمپس میں کثیر نسلی ماحول کو یقینی بنانے کے لیے رنگ و نسل کو ایک طریقہ کار خیال کرتی ہیں۔ ساتھ ہی اس فیصلے سے ایک طویل جنگ کا راستہ کھل گیا ہے جس کے بارے میں ماہرین کی پیش گوئی ہے کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں جائے گا۔ اس تمام صورتحال پر ہارورڈ یونیورسٹی نے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

’اسٹوڈنٹس فار فیئر ایڈمیشنز‘ نامی تنظیم نے کہا ہے کہ وہ فیصلے کے خلاف اپیل کرے گی۔ تنظیم کے سربراہ ایڈورڈ بلوم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم نے جو دستاویزات اور بیان حلفی داخل کیے تھے ان سے صاف انکشاف ہوتا تھا کہ ایشیائی امریکی درخواست کنندگان کے خلاف سوچے سمجھے انداز میں امتیازی سلوک روا رکھا گیا ہے۔

ایفرمیٹیو ایکشن کے حامیوں نے کہا ہے کہ اس فیصلے سے دوسری یونیورسٹیوں کو تقویت ملے گی۔

لائرز کمیٹی فار سول رائٹس انڈر لا‘ کی صدر اور ایکزیکٹیو ڈائریکٹر کرسٹن کلارک کا کہنا ہے کہ فیصلے سے اس بات کو صحیح طور پر تسلیم کیا گیا ہے کہ نسل کی بنیاد پر داخلے نہ صرف قانونی بلکہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہیں کہ تعلیمی ادارے ہر طبقہ زندگی کے طالبعلموں کے لیے دستیاب ہیں جن میں نسلی اقلیتیں شامل ہیں۔

جہاں تک ہارورڈ یونیورسٹی کا معاملہ ہے مقدمہ دائر کرنے والوں نے یہ دلیل دی تھی کہ داخلوں کے معاملے میں ایشیائی امریکیوں کے لیے معیار اونچا رکھا گیا تھا جبکہ ایسے سیاہ فام اور ہسپانوی طالبعلموں کو فوقیت دی گئی تھی جس کے خراب گریڈز تھے۔ 2013 میں ہارورڈ کی ایک اپنی رپورٹ میں پتا چلا تھا کہ اگر صرف نصابی صلاحیت کی بنیاد پر درخواستوں کا جائزہ لیا جاتا تو 43 فیصد طلبا ایشیائی امریکی ہوتے جب کہ حقیقتاً ان کا تناسب صرف 19 فیصد تھا۔ ہارورڈ کا کہنا ہے کہ رپورٹ کی بنیاد نامکمل اعداد و شمار پر تھی۔

مقدمے میں یہ دلیل دی گئی تھی کہ ایشیائی امریکیوں کو نسلی تعصب کی بنا پر کم ریٹنگز ملتی ہیں، جس کی وجہ سے طلبا کی درخواستیں بہت عمدہ نصابی ریکارڈ کے باوجود رد ہو جاتی ہیں۔ مقدمے کی بنیاد ہارورڈ میں داخلے سے متعلق چھ سال کے اعداد و شمار پر رکھی گئی تھی، جس کے مطابق، ایشیائی امریکیوں کی ذاتی ریٹنگ اور ان کے داخلوں کی شرح سب سے کمتر سطح پر تھی۔

بہت سی نامور یونیورسٹیوں کی طرح ہارورڈ کو اس بات کا اعتراف ہے کہ وہ داخلوں کے معاملے میں رنگ و نسل کو اس لیے پیش نظر رکھتی ہے کہ کثیر نسلی ماحول کو فروغ دیا جائے۔ تاہم، اس کا مؤقف ہے کہ یہ ان عوامل میں سے محض ایک ہے جو داخلے کی درخواستوں پر فیصلے سے پہلے زیر غور آتے ہیں۔ بعض ریاستیں داخلوں کے معاملے میں رنگ و نسل کو اہمیت دینے پر پابندی لگاتی ہیں۔

ہارورڈ یونیورسٹی نے ’اسٹوڈنٹس فار فیئر ایڈمیشنز‘ کو مبینہ طور پر ایک سیاسی گروپ قرار دیا ہے، جسے بقول اس کے، ایشیائی امریکیوں کی حقیقی معنوں میں مدد کرنے میں دلچسپی نہیں ہے۔ تاہم، اس تنظیم کا کہنا ہے کہ اس کے بیس ہزار سے زیادہ ممبر ہیں۔