نواز شریف کے صاحبزادوں کے ان ریفرنسز میں وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔ حسن اور حسین نواز لگ بھگ سات برس بعد پاکستان لوٹے ہیں۔ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے دونوں کو ایون فیلڈ، فلیگ شپ انوسٹمنٹ اور العزیزیہ ریفرنس میں ریلیف دیا ہے۔ |
سابق وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کے بیٹے حسن نواز اور حسین نواز کو ایون فیلڈ ریفرنس، فلیگ شپ انوسٹمنٹ ریفرنس اور العزیزیہ ریفرنس میں بری کر دیا گیا ہے۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے منگل کو حسن نواز اور حسین نواز کی بریت کی درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سنایا۔
ستمبر2017 میں پاناما پیپرز کیس پر عدالتی فیصلے کی بنیاد پر سابق وزیرِ اعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف تین ریفرنسز العزیزیہ ریفرنس، فلیگ شپ ریفرنس اور ایون فیلڈ ریفرنس دائر کیے گئے تھے۔
جولائی 2018 میں نواز شریف، ان کی صاحب زادی مریم نواز اور اُن کے شوہر کیپٹن صفدر کو سزا سنائی گئی تھیں جب کہ حسن اور حسن نواز کے گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے گئے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
حسن اور حسین نواز 2017 کے بعد مستقل بیرونِ ملک مقیم تھے اور سات سال بعد رواں ماہ ملک واپس لوٹے ہیں۔
پانچ دن قبل اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نواز شریف کے دونوں صاحب زادوں حسن نواز اور حسین نواز کے ان تین ریفرنسوں میں اشتہاری ہونے کا اسٹیٹس ختم کیا جب کہ ان کی گرفتاری کا وارنٹ 50 ہزار روپے کے عوض منسوخ کر دیا تھا۔
اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق عدالت میں حسن اور حسین نواز کے وکلا نے آگاہ کیا کہ ان ریفرنسز میں مرکزی ملزمان پہلے ہی بری ہو چکے ہیں۔ اس صورتِ حال میں معاونت کے الزام میں حسن اور حسین نواز کے خلاف کیس نہیں چل سکتا۔
یہ بھی جانیے
اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کو العزیزیہ کیس سے بری کر دیاایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا کالعدم قرار نواز شریف کی چوتھی واپسی؛ سابق وزیرِ اعظم نے کب کب سیاست میں کم بیک کیا؟ان ریفرنسز میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف اور ان کی صاحب زادی مریم نواز پہلے ہی بری ہو چکے ہیں۔
مریم نواز کی بریت دو برس قبل سامنے آئی تھی جب کہ نواز شریف حالیہ انتخابات سے کچھ ماہ قبل پاکستان آئے تھے جس کے بعد وہ مختصر سماعت کے بعد ریفرنسز سے بری ہوئے تھے۔
دورانِ سماعت کیا ہوا؟
کیس کی سماعت کے دوران حسن نواز اور حسین نواز کے وکیل قاضی مصباح اور نیب پراسیکیوٹرز احتساب عدالت میں پیش ہوئے۔
احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر سے سوال کیا کہ درخواست پر آپ کی رپورٹ آنی تھی؟ جس پر ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب اظہر مقبول نے جواب دیا کہ اس کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ رکاوٹ نہیں۔ عدالت اس کیس کا فیصلہ کر سکتی ہے۔
احتساب عدالت کے جج نے نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر سے کہا کہ ہم آپ کا بیان ریکارڈ کر لیتے ہیں۔
ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب اظہر مقبول نے دلائل دیتے ہوئے جواب دیا کہ آپ میرا بیان ریکارڈ کر لیں۔ یہ کیس نیب ترامیم سے متعلق نہیں ہے۔ اس کیس میں ہائی کورٹ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے حوالے سے فیصلہ کر چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مریم نواز کی بریت کے خلاف ہم نے اپیل دائر نہیں کی تھی۔ حسن نواز اور حسین نواز پر سازش اور معاونت کا الزام ہے۔ ان کے کیسز میں مرکزی ملزمان بری ہو چکے ہیں۔
وکیلِ صفائی قاضی مصباح نے جوابی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جن دستاویزات پر مریم نواز کو بری کیا گیا ان پر ہی نواز شریف کی بریت ہوئی جب کہ نیب نے مریم نواز کی بریت کے خلاف اپیل دائر نہیں کی تھی۔
انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی کاپی ہائی کورٹ کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔
اس موقع پر وکیلِ صفائی نے ریفرنسز سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے مختلف فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مریم نواز کے خلاف ریفرنس میں نیب کوئی شواہد پیش نہیں کر سکا۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے مریم نواز اور نواز شریف کو کیس سے بری کر دیا تھا۔
وکیل صفائی نے کہا کہ العزیزیہ کیس میں دسمبر 2023 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی اپیل منظور کی تھی جب کہ نیب نے نواز شریف کی اپیل منظور ہونے کے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا تھا۔
ان کے بقول نیب نے مزید شواہد نہیں دیے جن کی بنیاد پر حسن اور حسین نواز پر مقدمہ چلایا جائے۔ جو شواہد ہیں ان پر بھی حسن نواز اورحسین نواز کو سزا نہیں ہو سکتی۔ ان دونوں کے خلاف کیس چلانا عدالتی وقت ضائع کرنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ مرکزی ملزم بری ہو گئے تو معاونت کے الزام میں کیس چل ہی نہیں سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف ٹرائل کورٹ سے بری ہو گئے تھے۔ ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف نیب نے 29 نومبر 2023 کو اپیل واپس لے لی تھی۔
قاضی مصباح ایڈووکیٹ نے کہا کہ کیس میں مرکزی ملزم بری ہوگئے تو معاونت کے الزام میں کیس نہیں چل سکتا۔ فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف ٹرائل کورٹ سے بری ہو گئے تھے۔
تیسرا کیس العزیزیہ ریفرنس تھا جس میں ٹرائل کورٹ نے نواز شریف کو سزا دی اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے بری کر دیا تھا۔
نیب نے بریت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل بھی نہیں کی جو تمام شواہد موجود ہیں ان کو تسلیم بھی کرلیا جائے تب بھی سزا کا کوئی امکان نہیں۔
نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ العزیزیہ ریفرنس میں سزا بڑھانے کے لیے نیب نے اپنی اپیل واپس لے لی تھی۔
دلائل مکمل ہونے پر اسلام آباد کی احتساب عدالت نے حسن نواز اور حسین نواز کی بریت کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جو بعد میں سناتے ہوئے حسن اور حسین نواز کو تینوں ریفرنسز میں بری کر دیا۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دونوں صاحب زادے سیاست سے الگ ہیں اور برطانیہ میں مستقل طور پر مقیم ہیں۔
ان کے دونوں بیٹے بیرون ملک ہی کاروبار کرتے ہیں اور پاکستان اپنے اہلِ خانہ سے ملاقاتوں کے لیے آتے رہتے ہیں۔