بیماریوں سے بچاؤ اور کنٹرول کے امریکی ادارے کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے تینتیس ممالک میں خسرے کے کیسز میں اضافہ دیکھا جا رہاہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کے اس مہلک مرض کے مکمل خاتمے کی راہ میں مالی وسائل اور بعض انتظامی اور سیاسی رکاوٹیں بھی حائل ہورہی ہیں۔
آغا خان یونیورسٹی ہاسپٹل سے منسلک ڈاکٹر ذوالفقار بھٹہ کے مطابق پاکستانی بچوں کی تقریبا 50 فیصد تعداد خسرہ جیسے خطرناک مرض سے محفوظ نہیں۔ اور اس کی ایک بڑی وجہ حفاظتی ادویات کی عدم دستیابی ہے۔
ڈاکٹر بھٹہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے صحت عامہ کے شعبے کی خراب صورت حال اور بین الاقوامی امدادی اداروں کا پولیو کے مقابلے میں خسرہ ، نمونیا اور خناق جیسے امراض کے خاتمے کے لیے کوششوں پر کم توجہ، خسرے کے مرض میں کمی نہ ہونے کی بڑی وجوہ ہیں۔
ادھر یورپ ، افریقہ اور ایشیا ءسمیت دنیا کے کئی دوسرے ممالک میں خسرے کے مریضوں میں اچانک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔ اور ایسا صرف غریب ممالک میں نہیں ہو رہا ، بلکہ ان میں فرانس بھی شامل ہے جہاں صحت کے اچھے نظام اور ویکسینز کی آسان دستیابی کے باوجود خسرے کے مریضوں کی تعداد میں سب سے تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
خسرے کے خاتمے کے لیئے کام کرنے والے ایک بین الاقوامی ادارے سے منسلک آندریا گے کے مطابق ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں طرح کے ممالک کو اس مرض پر قابو پانے میں مشکلات کا سامنا ہے
ترقی پذیر ممالک میں اکثر بچوںمیں اس مرض کی وجہ ویکسین کی عدم دستیابی ہے ۔ لیکن ترقی یافتہ ممالک میں اس کی وجہ ویکسین نہ لگوانے کا فیصلہ ہے۔
تیزی سے پھیلنے والی سانس کی اس بیماری سے سب سے زیادہ بچے متاثر ہوتے ہیں ۔ یہ مرض بگڑ جائے تو اندھے پن اور دماغ کی سوجن اور بعض انتہائی کیسز میں موت کا باعث بھی بن سکتا ہے ۔ اس مرض سے ہر روز 450 بچوں کی ہلاکتیں ہوتی ہیں ۔آندریا گے کہتی ہیں کہ ایک بچے کو خسرے کی ویکسین دینے کا خرچ تقریبا ً ایک ڈالر ہے۔ تاہم کئی ممالک میں اس سلسلے میں بڑی رکاوٹ سیاسی عزم کی کمی ہے۔
خسرے سے بچاؤ کے ادارے کے مطابق 2020ء تک اس مرض کے دنیا سے مکمل خاتمے کے لیئے 21 کروڑ20 لاکھ ڈالرز کی ضرورت ہوگی۔