جنوبی مشرقی افریقہ کے ملک ملاوی کے ایک دیہی علاقے سے ایک عورت اور اس کا بچہ کئی گھنٹوں کا سفر کرکے ایچ آئی وی وائرس کا ٹیسٹ کرانے آئے ہیں۔ یہ وہ وائرس ہے جس سے ایڈز کا مرض لاحق ہوتا ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بہت سے افریقی اور ایشیائی ممالک میں لوگوں کو لاحق وبائی اور خطرناک بیماریوں جیسا کہ ایچ آئی وی یا یرقان کا پتہ لگانا ان بیماریوں کا علاج کرنے سے زیادہ مشکل ہے۔
بھارت میں طبی سہولیات بہتر بنانے کے لیے حال ہی میں حکومت نے دیہی علاقوں میں گاڑیوں میں بنائی گئی لیبارٹریز بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا ۔ تاکہ ان علاقے میں رہنے والے لوگوں میں ایچ آئی وی اور دیگر بیماریوں کی تشخیص ممکن بنائی جا سکے۔
ایس پی بیندیوپادھے اس مہم کے بانیوں میں شامل تھے۔
ان کا اور دیگر طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ گاڑیوں میں بنائی گئی ان لیبارٹریز کی وجہ سے نہ صرف بیماریوں کی تشخیص بہتر ہوئی ہے بلکہ دیہی علاقوں میں رہنے والوں کو طبی امداد زیادہ موثر انداز میں پہنچانا بھی ممکن ہوا ہے۔
دیہی علاقوں میں بسنے والے غریب افراد کے لیے صحت کی سہولیات کو اس جدید چپ کے ذریعے مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ جسے ایم چپ کا نام دیا گیا ہے۔
نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر سیموئل سیا اس چپ کے موجد ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس چپ کی مدد سے صرف خون کے ایک قطرے سے ایچ آئی وی اور Syphilis جیسی مہلک بیماریوں کا پتہ چلانا ممکن ہے۔
ڈاکٹر سیا کا کہنا ہے کہ ایک ہی مرتبہ استعمال کے قابل یہ پلاسٹک کارڈ عام لیبارٹری کی نسبت بہتر ہے۔ اس کی قیمت صرف ایک ڈالر ہے، اور چونکہ اسے استعمال کرکے پھینکا جا سکتا ہے لہذا اس کا دوسرے مریضوں کے خون کے نمونوں کے ساتھ ملنے کا امکان نہیں ہے۔ اور اس کے نتائج بالکل درست ہوتے ہیں۔
حال ہی میں افریقی ملک روانڈا میں اس چپ کے ذریعے مختلف لوگوں کے خون کے نمونوں کا معائنہ کرنے پر ایچ آئی وی کی تشخیص 100% جبکہ Syphilis کی تشخیص 94% تک درست تھی۔
ڈاکٹر سیا کا خیال ہے کہ تیزاور درست نتائج حاصل کرنے کے لیے غریب ممالک میں یہ چپ بہت کارآمد ثابت ہو سکتی ہے جہاں بیماریوں کی تشخیص نہ ہونے کے سبب زچہ و بچہ کی موت کی شرح بہت زیادہ ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایم چپ کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک میں طبی سہولیات کم قیمت پر مہیا کی جا سکیں گی۔