پاکستان میں اعلی تعلیمی کمیشن (ایچ ای سی) کا ایک خط سوشل میڈیا پر بحث کا موضوع بنا ہوا ہے جس میں کمیشن نے یونیورسٹی میں ہولی کی تقریب منعقد کرنے کو پاکستان کے ’تشخص‘ کے خلاف قرار دیا ہے۔
ایچ ای سی نے یہ خط یونیورسٹیوں کے کیمپس میں تقریبات اور تہواروں کی تقریبات کے انعقاد کے بارے میں سے وائس چانسلرز، ریکٹرز اور انسٹی ٹیوٹ کے سربراہوں کے نام لکھا ہے۔ خط میں یہ ذکر نہیں کیا گیا کہ ہولی کا انعقاد کس تعلیمی ادارے میں کیا گیا تھا۔
تاہم ایچ ای سی کے اس خط کو رواں ماہ دارالحکومت اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی میں ہولی کے انعقاد سے متعلق قرار دیا جا رہا ہے۔ حالیہ عرصے میں قائد اعظم یونیورسٹی میں ہولی منانے کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی تھیں۔
واضح رہے کہ ہندو تہوار ہولی مقامی کیلنڈر کے آخری مہینے پھاگن میں منایا جاتا ہے جو فروری اور مارچ کے مہینے میں آتا ہے۔
روایتی طور پر یہ تہوار موسمِ سرما ختم ہونے پر بہار کے استقبال کے لیے منایا جاتا ہے۔ اسی روایت کے مطابق رواں برس آٹھ مارچ کو ہولی کا تہوار منایا گیا تھا۔
قائد اعظم یونیورسٹی میں ہونے والی تقریب کو ہولی کا نام دیا گیا ہے لیکن جون میں ہونے والی یہ تقریب ہولی کے دن منعقد نہیں کی گئی تھی۔
Holi celebrations in Quaid-I-Azam University Islamabad Pakistan 🍁Biggest holi celebration in Pakistan 💓 pic.twitter.com/xdBXwYEglt
— QAU News (@NewsQau) June 13, 2023
ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اپنے خط میں کہا ہے کہ ہمارے مذہب کی طرف سے متعین ثقافتی اور اخلاقی اقدار کی حمایت کی جاتی ہے۔ ایچ ای سی کی حتمی ذمے داری ہے کہ وہ نوجوانوں کے جوش و جذبے کو پڑھے لکھے، بالغ اور ذمے دار شہریوں کے طور پر پروان چڑھائے۔
خظ میں کہا گیا ہے کہ ایسی سرگرمیوں کا مشاہدہ کرنا افسوسناک ہے جو ہماری سماجی ثقافتی اقدار سے مکمل طور پر منقطع ہونے اور ملک کے اسلامی تشخص کے خاتمے کی تصویر پیش کرتی ہیں۔ ایچ ای سی کے بقول ’ہندو تہوار ہولی‘ کا انعقاد بھی ایسا ہی واقعہ ہے جس کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی ہے اور اس سے ملکی امیج متاثر ہوا ہے۔
Spoke to an @hecpkofficial director who was annoyed at the press calling HEC Exec Dir%27s restriction on campus celebration of #Holi a *ban*. Dr Sohail%27s notification is clearly discriminatory & her Islamic identity is v.fragile if its *erosion* occurs due to a happy cultural event https://t.co/7sLqwtRsoo pic.twitter.com/nrgOZA70SP
— Rabia Mehmood - رابعہ (@Rabail26) June 21, 2023
ہائر ایجوکیشن کمیشن نے خط میں مزید کہا ہے کہ اگرچہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ثقافتی، نسلی اور مذہبی تنوع ایک جامع اور روادار معاشرے کی طرف لے جاتا ہے اور تمام عقائد کا احترام ضروری ہے۔
تاہم خط کے متن کے مطابق ایچ ای سی نے تعلیمی اداروں کو ایسی سرگرمیوں سے دور رہنے کا مشورہ دیا ہے جو اس کے بقول ملکی تشخص اور سماجی اقدار کے خلاف ہوں۔
ایچ ای سی کی جانب سے جاری ہونے والے اس خط پر بھارت اور پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کا ردعمل سامنے آرہا ہے۔ پاکستان اور بھارت میں صارفین نے ایچ ای سی کے خط کو پاکستانی تعلیمی اداروں میں ہولی پر پابندی قرار دیا ہے۔
بھارتی صحافی سواتی گوئیل شرما نے اپنے ٹوئٹر میں ایچ ای سی کے لیٹر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان اور ان کے سندھی ہندو دوستوں کے ہولی منانے سے پاکستانی حکومت اتنی عدم تحفظ کا شکار ہوئی کہ اس نے ہولی پر پابندی لگا دی۔
Visuals of Muslim students joining their Sindhi Hindu friends in celebrating Holi at a campus recently has caused such insecurity in the Land of The Pure idiots that Pakistani government has ordered all colleges to refrain from such activities. They ‘erode Islamic identity’ and… pic.twitter.com/dj5KA4yMob
— Swati Goel Sharma (@swati_gs) June 21, 2023
انہوں نے کہا کہ یہ عدم تحفظ کا احساس اس وقت ہے جب ہندو پاکستانی آبادی کا صرف دو فی صد ہیں اور اس ملک کو روز چھوڑ کر جارہے ہیں۔ ایسے حالات میں کس امیج کی بات کی جارہی ہے۔
پاکستانی قانون دان صلاح الدین احمد نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ ایچ ای سی کہتا ہے کہ ہولی منانے سے ملک کا امیج خراب ہوا ہے۔
HEC says Holi event at university has tarnished nation’s image 🤦🏽. When idiocy is so completely pervasive and priorities so skewed, can we ever progress to being a normal country?https://t.co/G4GWtXWEh7
— Salahuddin Ahmed (@SalAhmedPK) June 21, 2023
ایک اور ٹوئٹر صارف وینگاس نے اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں خوش آمدید جہاں یونیورسٹیوں میں ہولی کے قدیم تہوار پر پابندی لگائی جارہی ہے۔
Welcome to Pakistan where our ancient Holi festival is banned in universities. HEC has issued an announcement after students celebrated Holi.Islamabad must understand that Holi/Diwali is part of the Sindhi culture —Islamabad neither accepts our Sindhi language nor does it honor… pic.twitter.com/LOWkOAYLcg
— Veengas (@VeengasJ) June 21, 2023
انسانی حقوق کے کارکن اور مصنف عمار علی جان نے کہا ہے کہ ایچ ای سی کو صرف ملک میں تعلیم کی صورتِ حال تک محدود رہنا چاہیے۔
HEC should be concerned about the dismal state of education in the country. Our universities are not even ranked in the top 1000. Yet, HEC is more worried about students celebrating Holi. Such misplaced priorities are the reason for the intellectual/moral decay we see in society.
— Ammar Ali Jan (@ammaralijan) June 21, 2023
ٹوئٹر صارف ابو زید سروجی نے ٹوئٹ کی کہ اسلامی احکامات صرف مسلمانوں کے لیے ہیں، لہذٰا ہم کسی غیر مسلم سے مسلمانوں کے مذہبی تہواروں کے دوران کوئی توقع نہیں رکھتے۔ لیکن اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے ملک میں اس طرح کی تقریبات کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
Islamic commands are for Muslims, so we never expect anything from any non-Muslim during fasts or other occasionsBut Muslims celebrating a pagan festival in a country separated in the name of Islam is absolutely triggering, its not matter of tolerance.They need belt treatment. https://t.co/wi6wRgBGyD
— Abu Zaid Sarooji (@Sarooji_) June 15, 2023