امریکہ کے صحافتی حلقوں میں ہیلن ٹامس جانا پہچانا نام ہے۔ وہ 60 سال سے زیادہ عرصےسے واشنگٹن کی سیاست کی رپورٹنگ کر رہی ہیں۔ 1961ء میں صدر جان ایف کینیڈی کے دور میں انہیں وائٹ ہاؤس کی پہلی خاتون نیوز رپورٹر بننے کا اعزاز حاصل ہوا تھا، جس کے بعد سے وہ ہر امریکی صدر کی نیوز رپورٹنگ کر رہی ہیں۔
آج سے 60 سال پہلے جب ہیلن ٹامس نے واشنگٹن میں اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا تو اس وقت خواتین رپورٹر کی تعداد بہت کم تھی۔ لیکن انہوں نے کسی بھی مشکل صورت حال کو اپنے صحافتی سفر کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیا۔وہ کہتی ہیں کہ مجھے تاریخ پسند ہے اور میں جانتی تھی کہ وائٹ ہاؤس ہی وہ جگہ ہے جہاں میرے لیے ہمیشہ کچھ سیکھنے کا امکان موجود ہو گا۔
اپنی صحافت کے ابتدائی دور کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ وہ ایک اچھا تجربہ تھا کیونکہ کینیڈی انتظامیہ کے ساتھ بلند توقعات وابستہ تھیں۔نوجوان آگے آ رہے تھے اور ان کے مقاصد بہت بلند تھے۔
گذشتہ 50 برس کے دوران ٹامس دس امریکی صدور کی خبروں کی رپورٹنگ کر چکی ہیں اور ان میں سے کئی ایک کے ساتھ بیرونی ملکوں کے دوروں پربھی جاچکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے یادگار دوروں میں سے ایک 1972ء میں صدر رچرڈ نکسن کا چین کا تاریخی دورہ تھا۔
اپنے اس سفر کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ مسلسل 20 برس تک چین کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات کی غیر موجودگی کے بعد اس اہم ترین دورے پر جانا سب ایک افسانے کی مانند لگتا ہے۔ واشنگٹن کا ہر رپورٹر اس دورے پر جانا چاہتا تھا، اس لیے میرا خیال ہے کہ ہم نے وہاں جو آٹھ دن گزارے، وہ ہمارے لیے بہت معلوماتی تھے، ہمارے لیے وہاں کی ہر بات نئی تھی، ہر چیز ایک خبر تھی۔ چینی کیا کھاتے ہیں، کیسے دکھائی دیتے ہیں، کیا پہنتے ہیں، وغیرہ۔
اب وہ صدارتی دوروں پر نہیں جاتیں، لیکن وہ وائٹ ہاؤس کی روزانہ کی پریس بریفنگز میں ضرور شرکت کرتی ہیں جہاں وہ اکثر اوقات سوالات اٹھاتی ہیں۔ وائٹ ہاؤس میں سابق صدر بش کی پریس سیکرٹری ڈینا پرینو کہتی ہیں کہ ٹامس کئی برسوں سے مشکل سوال کرنے کی وجہ سے مشہور ہیں۔
صدر بل کلنٹن کی پریس سیکرٹری ڈی ڈی مائیر کا کہنا ہے کہ ٹامس معاملے کی تہہ میں پہنچنے کی کوشش کرتی ہیں اور ان کی یہی وہ خوبی ہے جس کی میں سب سے زیادہ تعریف کرتی ہوں۔ وہ ہر آنے والے دن اور ہر ہفتے اور ہر آنے والے ہفتے، اور ہر انتظامیہ کے دور میں ہمیشہ حقائق تک پہنچنے کی کوشش کرتی رہتی تھیں۔
ہیلن ٹامس یہ تسلیم کرتی ہیں کہ انہیں اپنے اس رویے کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔وہ کہتی ہیں کہ میرا خیال ہے کہ میں اپنی صحافتی زندگی میں بہت زیادہ مستقل مزاج اور بے باک رہی ہوں اس لیے انتظامیہ میرے سوالات سے بچنے کی کوشش کرتی تھی۔ وہ مجھے بلا کر کوئی زیادہ خوشی محسوس نہیں کرتے تھے، لیکن میرا خیال ہے کہ ہم صحافی ان امریکی عوام کی نمائندگی کرتے ہیں جنہیں صدر سے سوال کرنے کا موقع ہاتھ نہیں آتا۔
ہیلن تھامس اس وقت 90 برس کی ہیں۔ لیکن ان کی ہمت جوان ہے۔ اس وقت وہ اخبار Hearst کی کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ پانچ کتابوں کی منصفہ بھی ہیں۔
اگرچہ وہ تسلیم کرتی ہیں کہ خواتین نے مختلف شعبوں میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن ان کا خیال ہے کہ خواتین کو اپنی صلاحیتیں منوانے کے لیے طویل سفر کرنا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ میرا خیال ہے کہ مردوں کی بالادستی کی اس دنیا کے ان شعبوں میں خواتین نے بہت کامیابی حاصل کی ہے جہاں پہلے انھیں کو داخل نہیں ہونے دیا جاتا تھا۔ لیکن وہ سمجھتی ہیں کہ خواتین کو اب بھی کام کی جگہوں پر صحیح معنوں میں برابری حاصل کرنے کے لیے بہت محنت کرنی ہے۔
وہ وائٹ ہاؤس کے بریفنگ میں شرکت کرنے صحافیوں پر زور دیتی ہیں کہ وہ سخت سوالات کیا کریں۔وہ کہتی ہیں کہ کوئی ایسا سوال کرنا جو موڈ خراب کر دے یا انہیں برہم کر دے، آسان کام نہیں ہے لیکن میں سمجھتی ہوں کہ کسی صدر سے سوال کرنا ایک بڑے اعزاز کی بات ہے اور آپ یہ موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں۔
ہیلن ٹامس کہتی ہیں کہ اکثر صدور سخت سوال سننا پسند نہیں کرتے لیکن انہیں ایسے سوال سننے چاہیئیں۔