|
ویب ڈیسک — اسرائیل کے حملے میں ایران کی حمایت یافتہ لبنانی عسکری تنظیم حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کی ہلاکت کے بعد کشیدگی میں مزید اضافے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے جب کہ ماہرین کہتے ہیں کہ علاقائی قوتیں کشیدگی کو ہوا دینے سے گریز کریں گی۔
حزب اللہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ غزہ اور فلسطینیوں کی حمایت میں اسرائیل کے خلاف جنگ جاری رکھے گی اور ثابت قدم لبنان کے عوام کا دفاع کیا جائے گا۔
حزب اللہ نے ہفتے کو تصدیق کی ہے حسن نصر اللہ اسرائیل کے فضائی حملے میں مارے گئے ہیں جب کہ اسرائیلی فوج نے کہا ہے نصراللہ کو ختم کر دیا ہے اور وہ اب دنیا کو دہشت زدہ نہیں کر سکیں گے۔
حسن نصراللہ کی ہلاکت پر ایران میں پانچ روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا ہے۔
ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حسن نصراللہ کا خون رائیگاں نہیں جائے گا، وہ اکیلے نہیں تھے بلکہ وہ ایک مکتبۂ فکر تھے جن کے بتائے ہوئے راستے پر سفر جاری رہے گا۔
ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے حسن نصراللہ کی ہلاکت کا ذمے دار جزوی طور پر امریکہ کو بھی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ امریکہ کی اسرائیل کے ساتھ ملی بھگت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔
حسن نصر اللہ کی ہلاکت کے بعد تنظیم کا نیا سربراہ کون ہو گا اور اسرائیل کے خلاف کارروائیاں کس طرح کی جائیں گی؟ یہ وہ سوال ہیں جن کا فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے۔
حزب اللہ کو خطے کی مضبوط ترین پیرا ملٹری فورس سمجھا جاتا ہے جس کے پاس نہ صرف جدید ہتھیار ہیں بلکہ ہدف کو نشانہ بنانے والے راکٹس اور ڈرونز بھی ہیں۔
SEE ALSO: حسن نصر اللہ: روپوش زندگی گزارنے والے حزب اللہ سربراہ کون تھے؟تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل کے تمام حصوں کو نشانہ بنا سکتی ہے جس کا عملی مظاہرہ اس نے اسرائیل کے ساتھ حالیہ مسلح جھڑپوں کے دوران بھی کیا ہے۔
حالیہ تنازع میں حزب اللہ نے اسرائیل کے خلاف ابتدا میں ٹینک شکن میزائل اور راکٹ فائر کیے تھے۔ تاہم بعد میں اس نے دھماکہ خیز مواد لے جانے والے ڈرونز اور زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل بھی استعمال کیے۔
حزب اللہ کا نیا سربراہ کون ہو گا؟
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق 42 سالہ ہاشم صفی الدین کو حسن نصر اللہ کا جانشین سمجھا جاتا تھا جو نہ صرف تنظیم کی ایگزیکٹو کونسل کے سربراہ ہیں بلکہ وہ حزب اللہ کے بیرون ملک سیاسی امور کو بھی دیکھتے ہیں۔
ہاشم صفی الدین حسن نصر اللہ کے کزن ہیں اور وہ انہی کی طرح سیاہ رنگ کا امامہ پہنتے ہیں۔ ان کے عوامی خطابات میں حزب اللہ کی عسکریت پسندانہ مؤقف اور فلسطینی کاز سے حمایت جھلکتی ہے۔
ہاشم صفی الدین حزب اللہ کے ملٹری آپریشنز کو منظم کرنے والی 'جہاد کونسل' میں اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ امریکہ کے محکمۂ خارجہ نے انہیں 2017 میں دہشت گرد قرار دیا تھا۔
'حزب اللہ کو عرب ریاستیں پسند نہیں کرتیں'
'رائٹرز' کے مطابق قطر میں جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے پروفیسر مہران کامراوا نے کہا ہے کہ خطے کے عرب ممالک میں ایک خاموش خوشی پائی جاتی ہے کیوں کہ کوئی بھی قدامت پسند عرب ریاست حزب اللہ کو پسند نہیں کرتی۔
انہوں نے کہا کہ علاقائی ممالک میں ایک قسم کا خدشہ موجود ہے کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو جنگ کو پھیلانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ وہ پہلے ہی لڑائی کو لبنان تک لے آئے ہیں۔ البتہ کسی حد تک یہ ریلیف پایا جاتا ہے کہ حسن نصر اللہ کا خاتمہ ہو گیا ہے۔
پروفیسر مہران نے کہا کہ اگر ایران کی نظر سے دیکھا جائے تو بدترین صورتِ حال اس سے قبل بھی دیکھی گئی تھی لیکن تہران نے اس وقت بھی کوئی ردِعمل نہیں دیا۔
ان کے بقول، تہران اپنی صبر کی اسٹرٹیجی پر گامزن ہے جہاں وہ ایک طویل گیم کھیل رہا ہے اور ان کے خیال میں یہ اسٹرٹیجی مستقبل میں بھی جاری رہے گی۔
مہران کامراوا نے کہا کہ ایران اسرائیل سے براہِ راست کشیدگی سے دور رہنا چاہتا ہے۔
SEE ALSO: ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای محفوظ مقام پر منتقل: رپورٹایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے ہفتے کو ایک بیان میں کہا ہے کہ تمام مسلمان لبنان کے عوام اور حزب اللہ کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔
اسرائیل کا حوالہ دیتے ہوئے خامنہ ای نے کہا کہ 'ظالم' حکومت کے خلاف لڑنے کے لیے آپ کے پاس جو وسائل ہیں ان سے حزب اللہ کی مدد کریں۔ ان کے بقول، خطے کی قسمت کا فیصلہ مزاحمتی قوتیں کریں گی اور حزب اللہ اس میں سب سے آگے ہے۔
خامنہ ای کا یہ بیان ایسے موقع پر آیا ہے جب اسرائیل اور حزب اللہ کی درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ چکی ہے اور گزشتہ ایک ہفتے کے دوران اسرائیل کے لبنان پر حملوں میں لبنانی وزارتِ صحت کے مطابق 720 سے زیادہ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو چکے ہیں۔
خلیجی ممالک اور اسرائیل کے تعلقات پر گہری نظر رکھنے والی سعودی تجزیہ کار عزیز الغاشیان کے مطابق سعودی عرب حزب اللہ کو خطے میں کشیدگی کی وجہ سمجھتا ہے اور حزب اللہ اور سعودی عرب کے درمیان کوئی پیار بھری دوستی نہیں ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
کارنیگ مڈل ایسٹ سینٹر کے اسکالر عبداللہ بابود بھی کہتے ہیں انہیں نہیں لگتا کہ ایران حسن نصراللہ کی ہلاکت کا جواب دے گا کیوں کہ تہران نے اپنی سر زمین پر حملے کے باوجود براہِ راست کوئی جواب نہیں دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ایران چاہے گا کہ ہر قیمت پر ردِ عمل سے اجتناب کیا جائے۔ تہران سمجھتا ہے کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو چاہتے ہیں کہ ایران کی جانب سے جواب آئے تاکہ اسے امریکہ کے ساتھ ایک کھلی جنگ میں دھکیل دیا جائے۔
واضح رہے کہ رواں برس جولائی میں ایران کے دارالحکومت تہران میں فلسطینی عسکری تنظیم حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ قاتلانہ حملے میں ہلاک ہو گئے تھے جس کا الزام تہران نے اسرائیل پر عائد کیا تھا۔
اسماعیل ہنیہ کو سرکاری مہمان خانے میں اُس وقت نشانہ بنایا گیا تھا جب وہ نو منتخب ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کے بعد واپس مہمان خانے پہنچے تھے۔ اسرائیل نے تاحال سرکاری طور پر ہنیہ کے قتل کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے۔
اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔