نوبیل انعام یا فتہ ایرانی شخصیت نرگس محمدی نے انسٹا گرام پر ارمیتا گیراوند کی ہلاکت پر تعزیت کا اظہار کیا ہے ۔ انہوں نے اپنی پوسٹ میں لکھا ، زندگی سے بھر پور ارمیتا گیراوند کو ان کے خوبصورت بالوں کی وجہ سے موت کے دہانے پر بھیجا گیا تھا ، جنہیں وہ حجاب پہننے کی پابندی کے حکم کی تعمیل میں چھپانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی تھی۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا نے ہفتے کو رپورٹ دی کہ17 سالہ گیراوند یکم اکتوبر کو جنوبی تہران میں میدان شہدا کے میٹرو اسٹیشن میں ایک سب وے میں داخل ہوتے ہوئے ملک میں نافذ حجاب کے قانون کی خلاف ورزی پر پولیس کےساتھ ایک مبینہ تنازع کے سبب بعد میں ہلاک ہو گئیں ۔
محمدی نے انسٹاگرام پر اپنی پوسٹ میں گیراوند کی موت سے متعلق رازداری پر تنقید کی ۔
محمدی نے لکھا، کسی غیر جانبدار رپورٹر کو اسپتال میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی ، صرف سرکاری میڈیا سے منسلک رپورٹرز کو ہی اس کی اجازت تھی۔ سرکاری خبر رساں اداروں نے 17 سالہ لڑکی کی موت کا اعلان کیا اور نہ ہی اس کے والدین نے ۔
SEE ALSO: امن کا نوبیل انعام؛ ایران میں خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی نرگس محمدی کے ناممحمدی نے لکھا ،“ جب سچ کو دفن کر دیا جاتاہے اور دفاع سے محروم متاثرہ شخص انصاف کے لیے نہیں بلکہ درد تک کے لیےچیخ و پکار نہ کر سکے تو موت ہی انسان کے لیے کم سے کم درد اور آلام ہوتی ہے ۔ درد ، در حقیقت ، اسلامی جمہوریہ کی حکومت کا جھوٹ ، دھوکا اور فریب ہے ۔“
محمدی نے لکھا ،“ میں کبھی ارمیتا گیراوند کی بے گناہ موت کو فراموش نہیں کروں گی اور میں اس کی یاد میں اب لازمی حجاب کو مزید برداشت نہیں کروں گی ۔“
نوبیل انعام یافتہ شخصیت نرگس محمدی گزشتہ دو عشروں میں ایران میں انسانی حقوق کی اپنی سر گرمیوں کی وجہ سے متعدد بار حراست اور قیدوبند کا سامناکر چکی ہیں اور اس وقت وہ حقوق کے لیے اپنی اسی حمایت کے نتیجے میں قید میں ہیں ۔
SEE ALSO: ایران۔ ڈریس کوڈ کے نئے قانون پرعمل نہ کرنےوالی خواتین کے لیے دس برس تک قید کی سزاایران کے لیے امریکہ کے خصوصی نائب سفیر Abram Paley نےہفتے کو ایکس پر ایک پوسٹ میں 17 سالہ گیراوند کی موت پر اپنی تعزیت کا اظہار کیا ۔
انہوں نے لکھا ، خواتین اور لڑکیوں کے خلاف ایرانی حکومت کی ریاستی سرپرستی کے تشدد نے متعدد خاندانوں پر ایران کے اندر اور باہر دونوں جگہ تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں ۔
ناروے میں قائم انسانی حقوق کے گروپ ، ہینگاؤ نے گیراوند خاندان کے ارکان کی فراہم کردہ معلومات کا حوالہ دیتے ہوئے ہفتے کی صبح کہا کہ حکام نے خاندان کے افراد کے لیے گراوند کی باقیات کی تدفین کے لیے اس کے آبائی شہر کرمان شاہ جانے پر پابندی عائد کر دی ہے ۔ یہ ایران کے مغرب میں کرد آبادی کا ایک شہر ہے ۔
SEE ALSO: ایران کی ای کامرس کمپنی کو خواتین ملازمین کے سر نہ ڈھانپنے پر پابندی کا سامناایران کے دوسرے بہت سے شہروں کی طرح ،کرمان شاہ میں بھی ستمبر 2022 میں 22 سالہ مہسا امینی کی اخلاقیات سے متعلق پولیس کی حراست میں موت کے رد عمل میں گزشتہ سال حکومت مخالف مظاہروں میں بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔
گیراوند کی موت اس کے تقریبا ایک سال بعد واقع ہوئی ہے جب امینی کی موت نے حکومت کے لازمی اسلامی ڈریس کوڈ پر کئی مہینوں تک حکومت مخالف مظاہروں کو جنم دیا اور وہ احتجاج کئی برسوں میں ایرانی حکام کے خلاف طاقت کے سب سے بڑے مظاہروں کی شکل اختیار کر گیا ۔
گیراوند کی تدفین پر ،جسے مبینہ طور پر اتوار کو ہونا ہے ،سخت سرکاری کنٹرول کی رپورٹس یہ ظاہر کرتی ہیں کہ تہران کے عہدے داروں کو ممکن ہے یہ تشویش لاحق ہو کہ یہ واقعہ بد امنی کی ایک نئی لہر کو جنم دے سکتا ہے ۔
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔