بھارتی کشمیر: شیخ نور الدین ولی کی تاریخی درگاہ
شیخ نور الدین جنہیں شیخ العالم، نُندہ ریشی اور علمدارِ کشمیر کے خطاب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ وہ کشمیری زبان کے پہلے نام ور شاعر، ادیب اور صوفی بزرگ سمجھے جاتے ہیں۔
شیخ نور الدین ولی کی تاریخی پُرانی درگاہ، اس سے ملحقہ خانقاہ اور رہائشی گاہیں مئی 1995 میں چرار شریف میں محصور عسکریت پسندوں اور بھارتی فوج کے درمیان خونریز جھڑپوں کے دوران خاکستر ہو گئی تھیں۔
زائرین درگاہ میں داخل ہونے پر نقد رقوم، طلائی زیورات یا چاول نذر و نیاز کے طور پر یہاں ڈالتے ہیں۔ مجاور بابا غلام نبی عمر انہیں 'خاکِ شفا' اور شیرینی پیش کرتے ہیں۔ زائرین تانبے کے بنے ایک بڑے برتن (ڈول) میں رکھا پانی بھی پیتے ہیں۔
درگاہ پر حاضری کے لیے آئے عقیدت مند عبادات میں مصروف ہیں۔
خواتین کی بڑی تعداد بھی یہاں کا رُخ کرتی ہے جن کے لیے ایک قنات لگا کر انتظامات کیے گئے ہیں۔
بعض زائرین بالخصوص خواتین یہاں رنگ برنگے دھاگے اور چھوٹے چھوٹے کپڑے کے ٹکڑے باندھتے ہیں۔ یہ عمل مقامی اصطلاح میں 'دئش' باندھنا کہلاتا ہے۔
چرار شریف میں بنی کانگڑی یا 'ژارہ کانگئر' جو ایک ہیٹر کا کام دیتی ہے اور سخت سردی میں کشمیری اسے اپنے پھیرن یا اونی چغے کے نیچے ساتھ کر لے جاتے ہیں سب سے عمدہ اور خوبصورت کانگڑی سمجھی جاتی ہے۔
درگاہ کے باہر خواتیں پراٹھے، حلوے اور ندر مونجہ (کشمیری ہلکی پھلکی غذا) کی ایک دکان سے خریداری کر رہی ہیں۔