کم و بیش دو برس پہلے بھارت کی ریاست اتر پردیش میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی(آئی آئی ٹی) کانپور میں ایک کمیٹی بنائی گئی جو یہ تحقیق کررہی تھی کہ طلبہ کے ایک احتجاج میں پڑھی گئی نظم میں ہندو مذہب کے خلاف منافرت پائی جاتی ہے یا نہیں?
قصہ یہ تھا کہ بھارت میں بنائے گئے شہریت قانون میں ترمیم کے خلاف جامعہ ملیہ دہلی کے طلبہ نے احتجاج کیا تھا جس کے بعد 15 دسمبر 2019 کو پولیس نے یونیورسٹی پر دھاوا بول دیا تھا۔کانپور میں 17 دسمبر 2019 کو آئی آئی ٹی کے طلبہ نے جامعہ ملیہ دہلی کے طلبہ سے اظہار یکجہتی کے لیے مارچ کیا۔ اس مارچ میں طلبہ نے اردو کے معروف شاعر فیض احمد فیض کی مشہور نظم ’ہم دیکھیں گے‘ پڑھی تھی جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوگئی۔
اس پر آئی آئی ٹی کے ایک استاد نے طلبہ کے مارچ کے خلاف انتظامیہ سے شکایت کی کہ اس نظم کی شاعری ہندوؤں کے خلاف ہے جس پر آئی آئی ٹی نے ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی بنا دی۔
نظم پر اعتراض یہ تھا کہ نظم میں ’ارضِ خدا کے کعبے سے/سب بت اٹھوائے جائیں گے‘ جیسے مصرعے موجود ہیں جو ہندو مذہب کے خلاف ہیں۔ یہ تنازع کھڑا ہونے کے بعد بھارت اور پاکستان میں کئی ادیبوں ، شاعروں اور صحافیوں نے اس نظم پر مضامین لکھے۔ اس کے پس منظر اور اس میں استعمال کی گئی علامتوں اور استعاروں کی وضاحت کی۔ لیکن آئی آئی ٹی کے بورڈ نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ ہم اس نظم کی تاویلات اور تشریحات کی تفصیل میں نہیں پڑیں گے۔ انسٹی ٹیوٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر منندرا اگروال نے اس موقعے پر کہا تھا کہ فیض احمد فیض کو کون جانتا ہے، ہم بس اتنا جانتے ہیں کہ بظاہر اس نظم کی شاعری ’اینٹی ہندو' ہے۔
فیض احمد فیض کی شاعری اور شخصیت سے تعارف رکھنے والے جانتے ہیں کہ اس نظم کا کسی مذہب کی مخالفت سے کوئی تعلق نہیں لیکن یہ تنازع سامنے آںے کے بعد فیض احمد فیض کی شخصیت اور شاعری کے نئے پرستار ضرور پیدا ہوگئے ۔
’شاعر کا راستہ مت روکیں‘
فیض احمد فیض 13 فروری 1911 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا پہلا مجموعۂ کلام ’نقش فریادی‘1941 میں شائع ہوا تھا۔ کانپور میں فیض صاحب کی شاعری پر مذہب مخالفت کا الزام لگایا تھا تو اس سے قبل فیض صاحب پر اپنے ہی ملک میں کبھی بغاوت اور کبھی ملک دشمنی کے الزامات لگائے گئے۔
فیض کے نواسے اور ان کے سوانح ’لو اینڈ ریولوشن: فیض احمد فیض این اتھینٹک بائیوگرافی‘ کے مصنف علی مدیح ہاشمی کہتے ہیں کہ جب کانپور میں یہ تنازع کھڑا ہوا تو میں نے اس وقت بھی یہ بات لکھی تھی کہ شاعر کے کلام پر پابندیاں لگانے سے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ فیض کے معاملے میں تو یہ بات کئی بار ثابت ہو چکی ہے۔ ان کی شاعری پر جب کوئی قدغن لگانے کی کوشش کی گئی ان کا پیغام اتنے ہی بڑے پیمانے پر لوگوں تک پہنچا۔
SEE ALSO: 'جب ارض خدا کے کعبے سے، سب بت اٹھوائے جائیں گے'علی مدیح ہاشمی کا کہنا ہے کہ اپنے پہلے مجموعۂ کلام کی اشاعت کے بعد فیض مقبول تو ہونا شروع ہو گئے تھے۔ لیکن ان کی اصل مقبولیت کا آغاز راولپنڈی سازش کیس سے ہوا تھا جس میں انہیں حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام میں پہلے موت کی سزا سنائی گئی اور وہ 1951 سے 1955 کے دوران قید میں رہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مدیح ہاشمی کا کہنا تھا کہ حکومت نے اس کیس کی اتنی تشہیر کر دی تھی کہ لوگوں کو فیض اور ان کے دیگر ساتھیوں کے بارے میں جاننے کا تجسس پیدا ہوا۔ عالمی سطح پر بھی یہ کیس رپورٹ ہوا جس کے بعد دنیا میں بائیں بازو کی تنظیموں اور دانشوروں میں فیض متعارف ہوئے۔ ان کی شاعری کے دیگر زبانوں میں ترجمے شروع ہوئے۔
علی مدیح ہاشمی کہتے ہیں کہ اپنی چار سالہ قید کے دوران فیض اس بات سے خوش تھے کہ انہیں بہت کچھ پڑھنے اور جم کر شاعری کرنے کی فرصت ملی اور انہی برسوں میں وہ اپنی شاعری کے تین مجموعے مرتب کرچکے تھے۔
نظم کو پہلی بار کب شہرت ملی؟
علی مدیح ہاشمی بتاتے ہیں کہ کانپور میں فیض کی نظم پر پابندی لگائی جانے کی بات ہو رہی تھی تو انہوں ںے کہا تھا کہ پاکستان میں یہ تجربہ ضیا الحق کے دور میں ہو چکا ہے اور دیکھ لیں اس کے نتیجے میں فیض کی شاعری کو لوگوں تک پہنچنے سے روکا نہیں جا سکا۔ وہ فیض کی اس نظم کی پہلی بار شہرت کا پس منظر بتاتے ہیں۔
علی مدیح ہاشمی نے بتایا کہ فیض کے انتقال کے بعد ان کی نانی یعنی فیض احمد فیض کی اہلیہ ایلس فیض اور والدہ منیزہ اور خالہ سلیمہ ہاشمی نے ان کے والد اور تایا کی مدد سے ’فیض فاؤنڈیشن‘ کی بنیاد رکھی۔
یہ جنر ل ضیا الحق کی آمریت کا دور تھا۔ مالی اور دیگر مسائل کے باوجود فیض فاؤنڈیشن کے تحت 13 فروری کو فیض کی سالگرہ کے موقعے پر ’فیض میلہ‘ کا انعقاد شروع ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ فیض میلہ عام طور پر عوامی مقامات پر ہوتا تھا۔ عمومًاً لاہور میں اوپن ایئر تھیٹر باغِ جناح اور ریلوے اسٹیڈیم میں یادگار فیض میلے منعقد ہوئے جن میں عابدہ پروین، پٹھانے خان اور کئی فنکار پر فارم کر چکے ہیں۔ فیض کی محبت میں کبھی ان فنکاروں نے معاوضے کا مطالبہ نہیں کیا۔
فیض کے انتقال کے دو برس بعد 1986 میں ہونے والا فیض میلہ لیکن کئی اعتبار سے تاریخی تھا۔ اس میلے میں معروف گلو کارہ اقبال بانو کا کانسرٹ رکھا گیا تھا۔
SEE ALSO: اقبال بانو کی یادیں!علی مدیح ہاشمی بتاتے ہیں کہ وہ اس تقریب میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ شریک تھے۔ اقبال بانو کو الحمرا آرٹس کونسل کے جس ہال میں پرفارم کرنا تھا وہ ان کے پہنچنے سے پہلے بھر چکا تھا اور ہال کا دروازہ بند کر دیا گیا تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ میری والدہ نے ہال سے باہر انتظار کرنے والوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے اسٹیج پر آ کر اعلان کیا کہ سیاسی کارکنوں کی بڑی تعداد اقبال بانو کو سننے کے لیے آئی ہے۔ کوئی نشست خالی نہیں لیکن ہال کے دروازے کھولے جارہے ہیں جسے جہاں جگہ ملےآ کر بیٹھ جائے۔
علی مدیح ہاشمی بتاتے ہیں کہ جیسے ہی ہال کے دروازے کھلے تو لوگوں کا ایک سیلاب اندر داخل ہو گیا اور ہال میں تل دھرنے کی جگہ نہیں بچی۔ جس کو جہاں جگہ ملی بیٹھ گیا۔
نظم کی ریکارڈنگ کے لیے چھاپے
اقبال بانو نے گانا شروع کیا اور فیض صاحب کی کئی غزلیں اور نظمیں گائیں لیکن انہیں سب سے زیادہ داد ’ہم دیکھیں گے‘ پر ملی۔ اقبال بانو نے کانسرٹ ختم کرنے کا اعلان کیا تو سامعین نے ’ہم دیکھیں گے‘ دوبارہ گانے کا مطالبہ شروع کر دیا۔
یہ مطالبہ اتنا پر زور تھا کہ اقبال بانو انکار نہیں کرسکیں۔ انہوں ںے جب دوبار نظم گانا شروع کی تو ہال میں جوش و ولولے کی ایک لہر دوڑ گئی۔ مجمع جوش میں آ کر بار بار ’انقلاب زندہ باد‘ کے نعرے لگا رہا تھا۔ تالیوں اور نعروں کی گونج سے لگتا تھا کہ الحمرا ہال کی چھت اڑ جائے گی۔ یہ وہ دور تھا جب ملک میں مارشل لا کی وجہ سےسیاسی سرگرمیوں اور آزادیٔ اظہار پر سخت پابندیاں تھی۔ گھٹن کے اس ماحول میں وہاں موجود لوگوں کو اس نظم نےایک نئے جذبے سے روشناس کرایا تھا۔
لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی۔ وہ بتاتے ہیں کہ الحمرا میں نظم گانے کے موقعے پر پیدا ہونے والے ماحول کی خبر حکومت کو بھی ہو گئی۔ جنرل ضیا کے دورِ آمریت میں ایسی ’باغیانہ موسیقی کی بھلا کیسے اجازت دی جاسکتی تھی؟ اس لیے کانسرٹ والی رات ہی فیض میلے کے منتظمین کے گھر پر چھاپے پڑنا شروع ہو گئے اور اس کانسرٹ کی تمام ریکارڈنگز ضبط کرکے تلف کر دی گئیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
وہ بتاتے ہیں کہ حیرت انگیز طور پر الحمرا کے ایک ٹیکنیشین نے بھی یہ نظم ریکارڈ کر لی تھی جو آج بھی محفوظ ہے۔ ان کے تایا شعیب ہاشمی اس آڈیو کی ایک کاپی کسی طرح اپنے دوستوں تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئے جہاں سے ریکارڈنگ دبئی پہنچی اور وہاں سے اس کی مزید کاپیاں تیار کر کے پھیلا دی گئیں۔ یہ نظم فیض نے 1979 میں کہی تھی لیکن اسے عوامی مقبولیت الحمرا میں ہونے والے اس کانسرٹ کے بعد حاصل ہوئی۔
نظم کا پس منظر
کینیڈا میں مقیم پاکستانی ادیب اشفاق حسین نے فیض کی شخصیت اور فن پر متعدد کتابیں لکھی ہیں۔ اُنہوں نے اس نظم کے پس منظر کے بارے میں اپنی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’فیض کی محبت‘ میں لکھا ہے کہ یہ وہ واحد نظم ہے جو اپنے قیامِ امریکہ کے دوران جنوری 1979 میں فیض نے انقلابِ ایران کا خیر مقدم کرتے ہوئے لکھی تھی۔
’ہم دیکھیں گے‘ اس کا پہلا مصرع ہے اور نظم کا عنوان ’وَّیَبقٰی وَجہُ رَبِّک‘ ہے جو قرآن کی ایک آیت سے لیا گیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں: ’’یہ محض اتفاق نہیں کہ جنوری کے آخری تاریخ تھی جب خمینی نے پیرس سے تہران کی طرف سفر اختیار کیا۔ ان ہی دنوں شہنشاہ ایران دربدر مارا مارا پھر رہا تھا اور یہی وہ دن تھے جب فیض جلاوطنی کا لباس زیب تن کیے ملکوں ملکوں آ جا رہے تھے۔‘‘
اشفاق حسین کے مطابق ایران میں بادشاہت کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں سے فیض کو خاص رغبت تھی جس کا اظہار انہوں نے 1953 میں جیل میں رہ کر ’ایرانی طلبہ کے نام‘ جیسی دل پذیر نظم میں بھی کیا تھا۔ اس وقت وزیرِِ اعظم مصدق کو پھانسی دے کر شنہشاہ کو دوبارہ ایران کے تخت پر بٹھایا گیا تھا۔ لیکن اس بار فیض کے سامنے ایک مختلف منظر نامہ تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ اس منظر میں نمایاں کون سی شخصیت تھی؟ یہ بات فیض کے لیے اہم نہیں تھی بلکہ اہم بات یہ تھی کہ ایران کی سر زمین پر تاج اچھالے گئے تھے اور تخت گرائے گئے تھے۔
فیض کے نواسے اور سوانح نگارعلی مدیح ہاشمی بھی اس نظم کا سیاسی پس منظر انقلاب ایران ہی بتاتے ہیں۔ ان کاکہنا ہے کہ معروف براڈ کاسٹر آغا ناصر نے فیض کی مختلف نظموں اور اشعار کے پس منظر سے متعلق اپنی کتاب ’ہم جیتے جی مصروف رہے‘ میں بھی اس بات کا تذکرہ کیا ہے۔
انقلاب کی نظم
ان کا کہنا ہے کہ یہ اس نظم کا تاریخی پس منظر تو ہے لیکن کسی بڑے فن کار کی تخلیق کو کسی خاص وقت تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔
ان کا کہنا ہے کہ فیض کی یہ نظم انقلاب اور مزاحمت کی نظم ہے اور جہاں بھی ناانصافی کے خلاف کوئی احتجاج ہو یہ اس کے لیے ہے۔ اسی لیے بھارت میں شہریت قانون کے خلاف احتجاج میں یہ نظم ان طلبہ کے دل کی آواز بن گئی۔ اس نظم کی مخالفت ہوئی اور پھر اس پر پابندی کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
اردو کے ممتاز نقاد پروفیسر ناصر عباس نیر کا کہنا ہے جہاں تک اس نظم کی قرآنی علامات، انالحق کا نعرہ جیسی لفظیات کا تعلق ہے تو یہ دراصل کمزوروں کی طرف سے طاقت وروں کے خلاف احتجاج کے لیے ہے۔ یہ احتجاج اس وقت اور ہر دور کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ شاعر اپنے کلچر سے اپنی علامتیں لاتا ہے اس میں وہ مجبور ہے۔ لیکن آرٹ تو یکساں انسانی ورثہ ہے۔ جب ہم انقلاب کے لیے ناظم حکمت اور پابلو نرودا یا کسی اور کی شاعری کو دیکھتے ہیں تو ہمارے پیشِ نظر ان کا مذہب نہیں ہوتا۔
سینسر شپ کی زد پر
فیض احمد فیض کی یہ نظم دو بار سینسر کی زد میں آئی۔ ایک بار تو اسے جب اقبال بانو نے گایا تو اس کی ریکارڈنگ غائب کرنے کی کوشش کی گئی اور ایک بار اس وقت جب فیض کے کلیات سے اس نظم کو خارج کر دیا گیا تھا۔
SEE ALSO: 'ایسے دستور کو، صبح بے نور کو، میں نہیں مانتا'اشفاق حسین کے مطابق فیض مشرقِ وسطیٰ کی دو بڑی بادشاہتوں کو مغربی سامراج کے مقاصد کا حصول قرار دیتے تھے۔ ان میں سے ایرانی بادشاہت کے تاج و تخت اچھالے گئے تو فیض نے دوسری بادشاہت کے بارے میں پیش گوئی کرتے ہوئے کہا تھا ’جب ارضِ خدا کے کعبے سے/ سب بت اٹھوائے جائیں گے /ہم اہلِ صفا مردودِ حرم مسند پر بٹھائے جائیں گے۔‘‘ تو یہ بات ضیاالحق کے دانشوروں کو کیسے پسند آتی، اس لیے اس نظم کو ان کے کلیات سے خارج کر دیا گیا۔
اس نظم کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اسے فیض کے کلیات ’نسخۂ ہائے وفا‘ کے پاکٹ ایڈیشن میں شامل کیا گیا تو وہ 1984 کا نہیں بلکہ 2006 کا زمانہ تھا اور جنرل ضیا الحق کو دنیا سے گئے تقریباً 18 برس ہوچکے تھے۔
ان کے مطابق جنرل مشرف کے زمانے میں سیاسی مصلحتوں کی بنا پر دنیا کے سامنے پاکستان کا ایک سوفٹ امیج پیش کرنا ضروری سمجھا گیا اور پھر یہ نظم اس وقت اپنی مقبولیت کی وجہ سے کتاب خرید کر پڑھنے والوں کی ضرورت بن چکی تھی اس لیے اسے بعد میں کلیات میں شامل کیا گیا۔
’یہ بھی میرے دل میں ہے‘
علی مدیح ہاشمی کہتے ہیں کہ فیض صاحب سے کسی نے ایک بار پوچھا تھا کہ آپ کے شعر اتنے لوگوں کے دل میں کیسے اتر جاتے ہیں؟ اس پر فیض صاحب نے کہا تھا کہ لوگوں کے دل پر وہی بات اثر کرتی ہے جو پہلے ہی ان کے دل میں ہو۔ جس طرح غالب نے کہا تھا ’میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔‘
تنقید نگار پروفیسر ناصر عباس نیر کہتے ہیں کہ بڑے شاعر کی دو بڑی خصوصیات ہوتی ہے۔ شاعری حسن تخلیق کرتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ حسن کیا ہے اور حسن کی پذیرائی کس طرح کی جائے ۔اسے ہم جمالیات کہتے ہیں۔ اردو کی جمالیات عربی اور فارسی سے تخلیق ہوئی اور فیض ان دونوں زبانوں کو جانتے تھے۔ اس لیے اُنہوں نے اردو کے شعری کلچر میں حسن کی تخلیق کو نہ صرف نئی وسعتیں دیں بلکہ اس میں ترقی پسند خیالات کو بھی پیش کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ شاعر کی دوسری بڑی کامیابی یہ ہوتی ہے کہ اس کے شعروں میں سماجی، سیاسی اور انسانی صورت حال سے ربط پایا جاتا ہو۔
SEE ALSO: 'معیاری اور غیر معیاری چھوڑیں، شاعری تو ہو رہی ہے'ناصر عباس نیر کے مطابق فیض آج بھی اس لیے اہم ہیں اور نوجوانوں میں ان کی مقبولیت پائی جاتی ہے کہ ان کی شاعری ہمارے موجودہ سیاسی اور سماجی منظر نامے سے متعلق ہونے کے ساتھ ساتھ احساسات کی سطح پر بھی ان کے دل کی ترجمانی کرتی ہے۔
علی مدیح ہاشمی کہتےہیں کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ فیض کی محبت، آزادی اور انصاف کے لیے کی گئی شاعری لوگوں کے دلوں میں نہ اترتی اور اسے کسی سرحد تک کیسے محدود کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے جب بھارت میں ’ہم دیکھیں گے‘ نظم پر تنازع ہوا تھا تو انہوں نے کہا تھا کہ حکومتوں کو شاعروں کے راستے میں نہیں آنا چاہیے کیوں کہ آپ ان کا راستہ نہیں روک سکتے۔