رسائی کے لنکس

حجاب تنازع: 'یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے'، امریکی تشویش پر بھارت کا ردِعمل


بھارت نے امریکہ سمیت بعض مغربی ممالک کی ملک میں جاری حجاب تنازع پر تشویش کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے اور نئی دہلی اس سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

خیال رہے کہ بھارتی ریاست کرناٹک کے ایک سرکاری کالج سے نئے سال کے آغاز پر شروع ہونے والا حجاب تنازع اب دیگر ریاستوں میں بھی پھیل گیا ہے۔ دارالحکومت سمیت مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

مغربی ممالک میں مذہبی آزادی پر نظر رکھنے اور رپورٹ پیش کرنے والے امریکی حکومت کے ایک ادارے انٹرنیشنل ریلیجس فریڈم (آئی آر ایف) نے مسلم طالبات کے حجاب پر پابندی کے فیصلے پر کرناٹک حکومت پر تنقید کی تھی۔

آئی آر ایف کے سفیر رشاد حسین نے جمعہ کی شام کو اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا کہ حجاب پر پابندی مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔ مذہبی آزادی کے تحت کسی کو بھی مذہبی لباس پسند کرنے کی آزادی ہے۔ بھارتی ریاست کرناٹک کو مذہبی لباس پہننے پر پابندی نہیں لگانی چاہیے۔


ان کے بقول اسکولوں میں حجاب پر پابندی مذہبی آزادی کو پامال کرتی ہے اور یہ قدم لڑکیوں اور خواتین کو بدنام کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے تحفظ کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔

خیال رہے کہ رشاد حسین مذہبی آزادی اور اس سے متعلق پالیسیوں کے سلسلے میں امریکی صدر جو بائیڈن کے مشیر بھی ہیں۔

انہیں گزشتہ سال دسمبر میں امریکی سینیٹ نے آئی آر ایف کا سفیر مقرر کیا تھا۔ اس سے قبل وہ امریکی حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ وہ اوباما انتظامیہ میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) میں امریکہ کے خصوصی نمائندے رہے ہیں۔

البتہ بھارت نے امریکی ادارے کی اس تنقید پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔

بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے کہا کہ بھارت اپنے داخلی امور میں مداخلت کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ریاست کرناٹک کے بعض تعلیمی اداروں میں ڈریس کوڈ کا معاملہ کرناٹک ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔ ہمارے ملک میں جو جمہوری ڈھانچہ، طریقہ کار، اخلاقیات اور سیاست ہے اس میں مسائل کو غور و غوض کے ساتھ حل کیا جاتا ہے۔

ان کے بقول جو لوگ بھارت کو اچھی طرح جانتے ہیں وہ ان حقائق کی مناسب انداز میں ستائش کریں گے۔

بھارتی حکومت نے اس سے قبل بھی بھار ت میں مذہبی آزادی سے متعلق امریکی ادارے کی تشویش کو مسترد کیا تھا۔

بھارت میں حجاب تنازع: کون کیا کہہ رہا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:46 0:00

کرناٹک میں اب صورتِ حال کیا ہے؟

رپورٹس کے مطابق کرناٹک ہائی کورٹ کی جانب سے ریاست کے ایک سے لے کر دسویں جماعت تک کے تعلیمی اداروں کو کھولنے کے حکم کے بعد پولیس نے جنوبی کنڑ اور اوڈوپی ضلع میں فلیگ مارچ کیا ہے۔

پولیس کے ایک اعلیٰ عہدے دار ہری رام شنکر کے مطابق پولیس نے جمعہ کی شام کو جنوبی کنڑ کے ضلع پتور اور سورت کال میں فلیگ مارچ کیا۔ اس میں سریع الحرکت فورس (آر اے ایف) کے 97ویں بٹالین کے 130 جوانوں نے حصہ لیا۔

رپورٹس کے مطابق دیگر علاقوں میں بھی پولیس نے فلیگ مارچ کیا تاکہ امن و امان کو یقینی بنایا جا سکے۔

خیال رہے کہ کرناٹک ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جمعرات کو اس معاملے پر سماعت کی اور طلبہ سے کہا کہ جب تک اس کا فیصلہ نہیں آ جاتا وہ مذہبی لباس پر اصرار نہ کریں۔

ریاستی حکومت نے اپنے نئے حکم میں کہا ہے کہ تعلیمی اداروں میں تعطیل احتیاطی اقدام کے طور پر 16 فروری تک بڑھا دی گئی ہے۔ تاہم آن لائن کلاسز جاری رہیں گی۔

کرناٹک ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ جمعہ کو اپلوڈ کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ عدالت میں آئینی اہمیت کے اہم نکات پر سنجیدگی سے بحث ہو رہی ہے۔

عدالت کے مطابق اس کی نشاندہی کی ضرورت نہیں ہے کہ بھارت ایک کثیر مذہبی، کثیر لسانی اور کثیر ثقافتی ملک ہے۔ وہ ایک سیکولر ملک ہے۔ لہذٰا یہاں بسنے والی تمام اقلیتوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔

عدالت کے مطابق یہ بات درست ہے کہ یہاں ہر شخص کو کسی بھی مذہب پر چلنے اور اس پر عمل کرنے کی آزادی ہے لیکن یہ آزادی بے روک ٹوک نہیں ہے۔ بلکہ وہ آئین کی مناسب پابندیوں کے تحت ہے۔

عدالت کے مطابق اس بات کی گہری تحقیق کی ضرورت ہے کہ کیاکلاس رومز میں حجاب پہننا اسلام کا لازمی حصہ ہے۔

کرناٹک ہائی کورٹ میں اس معاملے پر پیر کی دوپہر ڈھائی بجے سے پھر سماعت شروع ہو گی۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG