حیدرآباد دکن میں موجود دنیا کی تاریخی عمارتوں میں شمار کی جانے والی عمارت چارمینار کے وجود کو خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔400 سالہ قدیم اس عمارت کی بنیادوں کو ہونے والے خطرے کے بارے میں ماہرین آثار قدیمہ نے بھی حکومت کو آگاہ کردیا ہے اورہنگامی بنیاد پر اس یادگار عمارت کے تحفظ کے لئے اقدامات کرنے کی سفارش کی ہے۔یوں تو ماہرین ایک عرصے سے اس بارے میں حکام کو چوکس کررہے تھے لیکن اس جانب کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔گذشتہ دنوں چارمینار کے ایک مینار کا حصہ منہدم ہوگیا جس کے بعدحکومت حرکت میں آئی۔
گذشتہ دنوں جب کہ ہزروں کی تعداد میں مسلمان رمضان کی خریداری میں مصروف تھے کہ اچانک مینار کا ایک حصہ ایک بڑی آواز کے ساتھ زمین پر آگرا جس سے علاقہ میں بھگدڑ مچ گئی اورلوگ چارمینار کے منہدم ہوجانے کے خطرے سے ڈر کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔ حیدرآباد کے مرکز میں واقع چارمینار کے اطراف ایک بازار ہے۔ حکام کے مطابق گاڑیوں کی آمدورفت بھی اس عمارت کے لئے خطرہ بن چکی ہے۔ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ سلاطین قطب شاہی کی یادگار اس عمارت کے اطراف ٹریفک کی اجازت کے سبب ارتعاش سے بنیادوں کو نقصان ہورہا ہے۔صوتی آلودگی بھی عمارت کےلئے خطرہ ہے۔ایک عرصے سے اس عمارت کے اطراف ٹریفک کو بند کرنے اور اس علاقے کو پیدل راہرو زون میں تبدیل کرنے کی باتیں کی جارہی تھیں لیکن عملی اقدامات نہیں کئے گئے۔گذشہ دنوں کے واقعہ کے بعد حکومت نے اس پراجیکٹ پر کام کا آغاز کیا تاہم اطراف ٹریفک کے بہاؤ کو کم نہیں کیا گیا۔ گاڑیاں اس عمارت سے صرف چند فٹ کے فاصلے سے گذرتی ہیں۔
چارمینار شہر حیدرآباد کی شناخت ہے۔جس طرح نیویارک کے ساتھ ہی اسٹیچو آف لبرٹی اور ماسکو کے ساتھ کریملن کا تصور ذہن میں آتا ہے اسی طرح چارمینار کے بغیر حیدرآباد کا ذکر مکمل نہیں ہوتا۔یہ عمارت پرانے شہر کے قلب میں واقع ہے۔1591 میں سلطان محمد قلی قطب شاہ نے اس تاریخی عمارت کو تعمیر کیا۔انہوں نے جب اپنا پایہ تخت گولکنڈہ سے حیدرآباد منتقل کیا تو اس کی یاد میں یہ عمارت تعمیر کی۔عمارت کے چاروں جانب چار مینار ہیں۔چھت سے ایک ایک مینار 24 میٹر بلند ہے۔چارمینار کی خوبصورت کمانیں 11 میٹر چوڑی اور 20 میٹر بلند ہیں۔ہر مینار کی چار منزلیں ہیں۔چھت پر ایک چھوٹی خوبصورت مسجد بھی ہے اس کے اطراف کے حصے کو اس زمانے میں عدالت کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔چارمینار کے اطراف مکہ مسجد اور دوسری تاریخی عمارتیں ہیں۔