آمد و رفت کا یہ قدرتی راستہ ہندوستان میں مغلوں کے دورِ اقتدار میں 'مغل روڈ' کے نام سے مشہور ہوا۔ کیوں کہ مغل بادشاہ، وزرا، گورنر اور دیگر سرکاری عہدے دار اور اہلکار سفر کے لیے اسی راستے کو چنتے تھے۔
جموں اور کشمیر کو ملانے والا یہ واحد راستہ نہیں، نیشنل ہائی وے بھی دونوں وادیوں کا زمینی رابطہ قائم کرتی ہے۔ لیکن مغل روڈ کو تاریخی اعتبار سے خاصی شہرت حاصل ہے۔
مغل بادشاہ جہانگیر کے عہد کے مشہور انجینئر علی مردان خان نے اس راستے کو باقاعدہ سڑک بنایا تھا اور اس پر قیام گاہیں بھی بنائیں تھیں۔ تاکہ مسافروں کو آسانیاں ملیں۔
جمّوں اور کشمیر کے درمیان سفر کرنے والے بکروال بھی اسی راستے کو چنتے ہیں۔
خانہ بدوش بکروالوں کے لیے اس راستے کو چننے کی ایک وجہ کم فاصلہ بھی ہے۔ وہ اپنے مال مویشیوں کے ساتھ پہاڑوں اور میدانوں سے گزرتے ہوئے جموں اور کشمیر آتے جاتے ہیں۔
مغل روڑ سر سبز و شاداب جنگلوں اور بلند و بالا پہاڑوں کے بیچ سے گزرتا ہے اور اس پسماندہ علاقے کے لوگوں کے لیے، بالخصوص جن کے مال مویشی پانچ چھ ماہ وادیٔ کشمیر کی خوب صورت چراگاہوں میں گزارا کرتے ہیں، اس راستے پر سفر نزدیک اور آسان تر ہے۔
سن 1947میں تقسیمِ ہند کے بعد مغل روڈ کئی برسوں تک چھوٹی بڑی گاڑیوں کے لیے بند رہا۔ لیکن حالیہ برسوں میں اسے نہ صرف کشادہ بنایا گیا ہے بلکہ جدید تقاضوں کے مطابق اس پر سفر کو مزید آسان بنانے کے لیے کئی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔
اس راستے میں کچھ چھوٹی چھوٹی بستیاں بھی آتی ہیں لیکن زیادہ تر راستہ پہاڑوں سے ہو کر گزرتا ہے۔
گزشتہ سال بھارت نے اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کا خاتمہ کیا تو اس راستے پر سیکیورٹی میں غیر معمولی اضافہ کیا گیا ہے۔
حفظِ ماتقدم کے طور پر شوپیاں اور بفلیاز نامی علاقے کے درمیان اس سڑک کے 84 کلو میٹر حصے پر جگہ جگہ پولیس ناکے لگائے گئے ہیں۔
مسافر گاڑیوں کے ساتھ پیدل چلنے والوں کو بھی ہر 10 یا 15 کلو میٹر کے بعد روک کر مقامی پولیس، بھارتی فوج یا نیم فوجی دستے گاڑیوں کی تلاشی لیتے ہیں اور مسافروں سے پوچھ گچھ کرتے ہیں۔
جمّوں کے ضلع راجوری کے داخلی راستے پر کیمپس بھی لگائے گئے ہیں جہاں لوگوں کے کرونا وائرس ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔