امریکہ میں ایک سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی پولیس کی تحویل میں ہلاکت کے خلاف گزشتہ دو ہفتوں سے مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان مظاہروں کے دوران کئی شہروں میں جلاؤ گھیراؤ اور لوٹ مار کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔
فلائیڈ کی ہلاکت نے امریکہ میں اس سے قبل پولیس کی حراست میں یا اہلکاروں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے سیاہ فام شہریوں کی یاد تازہ کردی ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ یوں تو کئی دہائیوں سے پولیس کی تحویل میں سیاہ فام افراد کی ہلاکت کا سلسلہ جاری ہے، لیکن گزشتہ چند برسوں میں ان واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
امریکہ میں پولیس تشدد سے ہلاک ہونے والے افراد کا ڈیٹا مرتب کرنے والے ریسرچ ادارے 'میپنگ پولیس وائلنس' کی ایک تحقیق کے مطابق امریکہ بھر میں 2019 میں پولیس کی زیرِ حراست 1099 افراد ہلاک ہوئے۔
تحقیق کے مطابق پورے 2019 کے دوران صرف 27 دن ایسے تھے جب امریکہ میں پولیس کی حراست میں کوئی شخص ہلاک نہیں ہوا۔
'میپنگ پولیس وائلنس' کے مطابق ہلاک ہونے والے افراد میں 24 فی صد افراد سیاہ فام تھے۔ سیاہ فام افراد امریکہ کی کل آبادی کا 13 فی صد ہیں اور ان کی آبادی کے لحاظ سے یہ تناسب زیادہ ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
'میپنگ پولیس وائلنس' کا دعویٰ ہے کہ وہ امریکہ میں پولیس تشدد یا زیرِ حراست ہلاکتوں کے 90 فی صد واقعات کا ڈیٹا مرتب کر چکا ہے۔
ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2013 سے لے کر 2019 تک پولیس تشدد یا کوتاہی کے 99 فی صد واقعات میں پولیس اہلکاروں کے خلاف سنگین نوعیت کی فردِ جرم عائد نہیں کی گئی۔
امریکہ کی ریاست منی سوٹا کے شہر منی ایپلس میں 25 مئی کو 46 سالہ جارج فلائیڈ پولیس کی حراست میں دم توڑ گیا تھا۔ ابتداً فلائیڈ کی گردن پر گھٹنا رکھنے والے پولیس اہلکار ڈیرک چاون کے خلاف اقدامِ قتل کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ لیکن مظاہروں میں شدت آنے کے بعد مرکزی ملزم کے خلاف مقدمے میں مزید سخت دفعات شامل کردی گئی ہیں جب کہ پولیس کے مزید تین اہلکاروں کو بھی شامل مقدمہ کرلیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اگر ماضی میں سیاہ فام افراد پر تشدد میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کی جاتی، تو مزید ایسے واقعات پیش نہ آتے۔
آئیے جارج فلائیڈ کی ہلاکت سے ملتے جلتے گزشتہ چند برسوں میں پیش آنے والے اہم واقعات اور ان کے بعد ہونے والے احتجاج پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
Your browser doesn’t support HTML5
بریونا ٹیلر
رواں سال 13 مارچ کو امریکی ریاست کینٹکی میں مبینہ طور منشیات رکھنے کے شبہے میں پولیس اہلکار 26 سالہ سیاہ فام خاتون بریونا ٹیلر کے فلیٹ میں داخل ہو گئے۔
پولیس کے بقول خاتون کے دوست نے پولیس پر فائرنگ کی اور جوابی فائرنگ میں بریونا ٹیلر ہلاک ہو گئیں۔ ٹیلر کو آٹھ گولیاں لگی تھیں اور بعد ازاں ان کے اپارٹمنٹ سے کسی قسم کی منشیات بھی برآمد نہیں ہوئی تھی۔
ٹیلر کی ہلاکت پر سیاہ فام حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں نے اسے نسلی تعصب کا شاخسانہ قرار دیا اور واقعے میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کے مطالبات بھی کیے گئے۔
احمد آربری
رواں سال 23 فروری کو اٹلانٹا میں ایک سفید فام سابق پولیس افسر اور اس کے بیٹے کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے 25 سالہ سیاہ فام نوجوان احمد آربری کا معاملہ ابھی امریکہ میں زیرِ بحث ہی تھا کہ جارج فلائیڈ کا واقعہ پیش آگیا۔
آربری کے قتل کے دو ماہ بعد تک پولیس نے ملزمان کو گرفتار نہیں کیا تھا۔ البتہ دو ماہ بعد قتل کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد احتجاج کی لہر اٹھی تو پھر پولیس نے دونوں ملزمان کو گرفتار کر لیا۔
احمد آربری پر فائرنگ کرنے والے گریگری مک مائیکل کا کہنا تھا کہ اُنہیں شک ہوا تھا کہ آربری چور ہے اور اس نے اُن کے بیٹے سے بھی اُلجھنے کی کوشش کی تھی۔ اس لیے مجبوراً انہیں اپنے دفاع میں فائرنگ کرنا پڑی۔
البتہ آربری کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ وہ علاقے میں جاگنگ کر رہے تھے جب انہیں دونوں ملزمان نے فائرنگ کرکے قتل کیا۔
دونوں ملزمان پر قتل کے الزام میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ گزشتہ ماہ مئی میں پولیس نے واقعے کی ویڈیو بنانے والے ایک اور شخص ولیم روڈی برائن کو بھی گرفتار کر لیا تھا۔ پولیس کا الزام ہے کہ برائن بھی احمد آربری کے قتل میں ملوث تھا۔
آلٹن اسٹرلنگ
امریکی ریاست لوزیانا میں دو سفید فام پولیس اہلکاروں نے 37 سالہ سیاہ فام آلٹن اسٹرلنگ کو اس وقت ہلاک کر دیا تھا جب پولیس نے پستول کی موجودگی کی اطلاع پر اسے حراست میں لینے کی کوشش کی تھی۔
چھ جولائی 2016 کو پیش آنے والے اس واقعے میں پولیس کے بقول دورانِ حراست اسٹرلنگ نے پستول نکال کر پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جس پر پولیس کو فائرنگ کرنا پڑی اور وہ ہلاک ہو گیا۔
فیلینڈو کاسٹل
امریکی شہر منی ایپلس میں 2016 میں پولیس کے خلاف ایک احتجاج کے دوران ایک سفید فام پولیس اہلکار نے فیلینڈو کاسٹل نامی نوجوان کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
اس واقعے کو بھی میڈیا نے بھرپور کوریج دی تھی۔ لیکن اس میں ملوث پولیس اہلکار کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکی تھی۔
سیموئیل ڈوبوز
امریکی ریاست اوہائیو کے شہر سنسناٹی میں سفید فام پولیس اہلکار کی زیرِ حراست سیموئیل ڈوبوز نامی سیاہ فام شہری ہلاک ہو گیا۔ 13 جولائی 2015 کو پیش آنے والے اس واقعے میں سیاہ فام شہری کو جعلی ٹریفک لائسنس کے شبہے میں پولیس اہلکاروں نے روکا تھا۔
لیکن پولیس کے بقول سیموئیل نے فرار ہونے کی کوشش کی تھی جس پر اُنہیں فائرنگ کرنا پڑی۔
فریڈی گرے
امریکی ریاست میری لینڈ کے شہر بالٹی مور کی پولیس نے 12 اپریل 2015 کو خنجر رکھنے کے الزام میں ایک سیاہ فام نوجوان فریڈی گرے کو گرفتار کیا تھا۔ دورانِ حراست مبینہ طور پر تشدد کے باعث گرے کوما میں چلا گیا تھا جس کے بعد اسے مقامی اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ 19 اپریل کو دم توڑ گیا۔
گرے کی ہلاکت کی خبر ملتے ہی بالٹی مور میں ہنگامے، جلاؤ گھیراؤ اور لوٹ مار کے واقعات شروع ہو گئے تھے۔
مظاہرین کا الزام تھا کہ پولیس نے فریڈی گرے کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جس سے اُس کی ہلاکت ہوئی۔ ان جھڑپوں میں لگ بھگ 15 پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے تھے۔
ایرک گارنر
امریکی شہر نیویارک کی پولیس نے 17 جولائی 2014 کو 44 سالہ سیاہ فام شہری ایرک گارنر کو غیر قانونی سگریٹ فروخت کرنے کے الزام میں حراست میں لیا تھا۔
جارج فلائیڈ کی طرح ڈینیل پینٹالیو نامی ایک پولیس اہلکار نے ایرک گارنر کی گردن دبائے رکھی تھی جس پر ایرک گارنر نے بھی فریاد کی تھی کہ "میں سانس نہیں لے سکتا، مجھے چھوڑ دو۔" کچھ دیر بعد گارنر کی موت واقع ہو گئی تھی۔
اس واقعے کے بعد "میں سانس نہیں لے سکتا" کو امریکہ میں نسلی تعصب کے خلاف سرگرم مظاہرین نے اپنے نعرے کے طور پر اپنا لیا تھا۔
اس واقعے پر پولیس کا مؤقف تھا کہ گرفتاری کے دوران گارنر نے مزاحمت کی کوشش کی تھی۔
ایرک گارنر کی بعد ازاں جاری کی جانے والی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بھی ثابت ہوا تھا کہ اُن کی موت گلا دبانے سے ہوئی۔
اس واقعے کی ویڈیو منظرِ عام پر آنے کے بعد بھی عوام میں غم و غصہ دیکھا گیا تھا۔ دسمبر 2014 میں گرینڈ جیوری کی جانب سے پولیس اہلکار پر مقدمہ نہ چلانے کے فیصلے کے بعد احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔
البتہ جولائی 2019 میں نیویارک پولیس نے گارنر کے اہلِ خانہ کے ساتھ عدالتی کارروائی نہ کرنے کے عوض ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت گارنر کے خاندان کو 59 لاکھ ڈالر ادا کیے گئے۔ بعد ازاں 2019 میں پولیس اہلکار ڈینئل پینٹالیو کو بھی ملازمت سے فارغ کر دیا گیا تھا۔
مائیکل براؤن
امریکہ کے شہر فرگوسن میں نو اگست 2014 کو سفید فام پولیس اہلکار ڈیرن ولسن کی حراست میں 18 سالہ سیاہ فام نوجوان مائیکل براؤن کی ہلاکت کے بعد بھی ملک گیر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔
واقعے کے بعد فرگوسن سمیت امریکہ کے مختلف شہروں میں مظاہرے ہوئے تھے جب کہ اسی سال گرینڈ جیوری کی جانب سے ڈیرن ولسن کے خلاف قتل کی فردِ جرم عائد نہ کرنے پر مظاہروں میں شدت آ گئی تھی جن میں کئی افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔
اس واقعے کے بعد بھی امریکہ میں نسلی تعصب اور پولیس سمیت دیگر اداروں کے سیاہ فام افراد کے ساتھ مبینہ متعصبانہ سلوک پر سوالات اُٹھائے گئے تھے۔
تامیر رائس
نومبر 2014 میں امریکی ریاست اوہائیو میں پولیس اہلکار نے کھلونا پستول رکھنے کی پاداش میں ایک 12 سالہ بچے کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ لیکن واقعے میں ملوث پولیس اہلکار کے خلاف کوئی سنگین الزام عائد نہیں کیا گیا۔
اس سے قبل بھی پیش آنے والے کئی واقعات میں سیاہ فام شہریوں کی ہلاکت پر سیاہ فاموں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیمیں اسے نسلی تعصب کا شاخسانہ قرار دیتی رہی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ قانون میں پیچیدگیوں کے باعث پولیس اہلکاروں کے خلاف اقدامِ قتل یا دیگر دفعات کے تحت فردِ جرم عائد نہیں کی جاتی۔ جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد پراسیکیوٹر مائیک فری مین نے بھی پولیس اہلکار ڈیریک چاون کے خلاف اقدامِ قتل کا الزام عائد کرنے میں حائل مشکلات کا اعتراف کیا تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ہم نے اتنی سرعت کے ساتھ کسی پولیس اہلکار پر اقدامِ قتل کی فردِ جرم عائد کی ہے۔
جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد امریکہ میں پولیس کو حاصل اختیارات پر بھی بحث کا سلسلہ جاری ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے پولیس اہلکاروں کے اختیارات میں کمی اور سزا و جزا کا مؤثر نظام وضع کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
امریکی تحقیقاتی ادارے 'ایف بی آئی' کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق امریکہ میں پولیسنگ ایک انتہائی مشکل کام ہے۔ 2019 میں 48 پولیس اہلکار دوران ڈیوٹی جب کہ 41 دیگر واقعات میں ہلاک ہوئے۔ ایف بی آئی کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دوران ڈیوٹی ہلاک ہونے والوں میں 40 سفید فام، سات سیاہ فام جب کہ ایک ایشین نژاد پولیس اہلکار تھا۔