برصغیر پاک و ہند میں مرثیہ نگاری کی تاریخ 15 ویں صدی سے شروع ہوتی ہے اور شاعری کی یہ صنف آج بھی مقبول ہے۔
معروف شاعر افتخار عارف کا کہنا ہے کہ آج شاعری کی یہ صنف شہدائے کربلا اور اہل بیت کی قربانیوں کی یاد تازہ کرنے اور انہیں نذرانہ عقیدت پیش کرنے سے کہیں آگے جا چکی ہے۔
بقول افتخار عارف مرثیہ نگاری حق کی آواز اور ظالم کے آگے ڈٹ جانے کا استعارہ ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں مرثیہ نگاری کے ارتقا اور تاریخ کے بارے میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے افتخار عارف کا کہنا تھا کہ 680 عیسوی (61 ہجری) میں کربلا میں پیش آنے والے لرزہ خیز واقعے پر پہلا مرثیہ ایک عرب شاعر عبید الرحمٰن عبید اللہ ابن ہدیٰ نے کہا تھا۔ جب کہ فارسی میں محتثم کاشانی سے شہر یار تک بہت سے شعرا نے مرثیہ لکھا۔
SEE ALSO: جوش کی آپ بیتی کے اوراق کیسے کھوئے؟ طویل نظم کہاں غائب ہے؟افتخار عارف نے بتایا کہ واقعہ کربلا کے بارے میں جو تخلیقی اور ادبی سرگرمی برصغیر میں نظر آتی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔
ان کا کہنا تھا کہ جہاں اس صنف کی مقبولیت اور پذیرائی کی کئی وجوہات ہیں، اس موضوع کے انتخاب کی ایک ممکنہ وجہ ہندوستان میں رزمیہ لکھنے کی ایک روایت بھی ہے۔ جس کی ایک مثال سنسکرت میں لکھے جانے والی مذہبی کتب رامائن اور مہا بھارت ہیں۔
ان کے بقول رامائن اور مہا بھارت دونوں 'رزم نامے' ہیں جن میں بڑی داستانوں کو رقم کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک اتفاق ہے کہ برصغیر میں اردو زبان مسلمانوں کے مذہبی عقائد کے ساتھ ترویج پائی۔
دکن کے پہلے صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے بھی نعت اور مرثیہ لکھا۔ دکن کی ریاستیں شیعہ مسلک کو مانتی تھیں۔ اس دور میں لکھے گئے ادب پر ایران کی ثقافتی چھاپ صاف نظر آتی ہے۔
افتخار عارف کے مطابق مرثیہ نگاری کو حقیقی عروج ریاست اودھ میں حاصل ہوا جہاں بات میر مظفر حسین ضمیر کے لکھے مرثیے سے ہوتی ہوئی ببر علی انیس اور سلامت علی دبیر کی مرثیہ گوئی تک پہنچتی ہے۔
SEE ALSO: علامہ آرزو لکھنو ی: شاعری کے علاوہ، نثر پر بھی کمال درجے کی قدرت رکھتے تھےان کا کہنا تھا کہ میر انیس اور مرزا دَبیر کے مخصوص انداز نے اردو زبان کی ہیئت میں ایسی تبدیلی کی کہ مرثیہ کی یہ صنف بام اوج تک پہنچی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ یہ بات دلچسپ ہے کہ وقت گزرنے ساتھ ساتھ مرثیہ نگاری لکھنؤ کے چند لکھاریوں کو پیچھے چھوڑتی ہوئی آگے نکل گئی اور لکھنے والوں میں بہت سے نامور شعرا گزرے جن کا تعلق اہل سنت مسلک سے تھا جب کہ کچھ تو ہندو بھی تھے۔
معروف مورخ ڈاکٹر مبارک علی نے مرثیہ نگاری کی برصغیر میں تاریخ پر بات کرتے ہوئے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شجاع الدولہ ریاست اودھ کے پہلے نواب وزیر بنے تو اس وقت ان علاقوں میں اہل تشیع اتنی کثیر تعداد میں موجود نہیں تھے۔ لیکن جوں جوں مغلیہ حکومتوں کی گرفت ڈھلی پڑتی گئی، ان علاقوں میں سنی مسلک کی بجائے اہل تشیع عقائد نے جگہ لینا شروع کر دی۔
ڈاکٹر مبارک اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ریاست اودھ کے حکمران خود اہل تشیع تھے جو ایران سے خصوصی وابستگی بھی رکھتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ بعد میں آنے والے حکمران آصف الدولہ کے ہی زمانے میں لکھنؤ میں امام بارگاہوں کی تعمیر کا کام ہوا جو لکھنو کی ثقافتی پہچان بنے۔
ڈاکٹر مبارک مزید کہتے ہیں کہ ریاست میں تبدیلی کے ساتھ ہی مرثیہ نگاری کی بنیاد بھی پڑی۔ تعزیے بھی باقاعدہ نکالے جانے لگے اور مجالس کا انعقاد بھی ہونے لگا۔ مجالس میں ذاکر واقعہ کربلا کی یاد تازہ کرتے تھے۔ اس زمانے میں یہ مجالس صرف محرم تک محدود نہ تھیں بلکہ پورا سال ان کا اہتمام کیا جاتا تھا۔
ڈاکٹر مبارک کے مطابق روحیل کھنڈ کے علاقے بھی جب ریاست اودھ کا حصہ بن گئے تو یہاں بھی ان ہی روایات نے جڑیں پکڑ لیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان روایات کی ترویج اور ادب سے سیاست کو کسی طور الگ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان علاقوں کی تہذیب کی نئی شکل میں ان روایات کا نمایاں کردار ہے ۔
برصغیر میں برطانوی راج کےاختتام پر مرثیہ نگاری نے کیا شکل اختیار کی، اس پر افتخار عارف کا کہنا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک میں یہ صنف پروان چڑھتی رہی۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں جمیل مظہری نے اس صنف کو آگے بڑھایا جبکہ پاکستان میں بہت سے معروف شعرا نے مرثیہ لکھا جن میں آل رضا زیدی، جوش ملیح آبادی، نسیم امروہوی، صبا اکبر آبادی، ہلال نقوی وغیرہ شامل ہیں۔
وہ مزید بتاتے ہیں کہ اگرچہ جدید مرثیہ فیض احمد فیض اور کرار حسین نے بھی لکھا لیکن مصطفیٰ زیدی کا لکھا ایک ادھورا مرثیہ نامکمل ہونے کے باوجود بہت سے مرثیوں پر بھاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جدید لکھاریوں میں رئیس احمد نے آزاد نظم میں مرثیہ لکھا جب کہ خواتین میں نشاط فاطمہ اور کراچی کی کچھ شاعرات نے بھی اس صنف میں کام کیا لیکن اب یہ اسلوب، حق کی آواز کا ایک استعارہ بن چکا ہے۔
ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ برصغیر کی تقسیم کے بعد چونکہ اہل تشیع ایک اقلیت ہیں، اس لیے اس صنف کی 70 سال میں جو ترویج ہوئی اس کی ایک وجہ مذہبی و ثقافتی روایات کے ذریعے اپنی شناخت قائم رکھنے کی کوشش بھی ہے۔