تین سال سے جاری خانہ جنگی کے دوران حسن نصراللہ، اسد حکومت کے پرزور حامی رہے ہیں اور ان کے جنگجو شام کی فورسز کے ساتھ مل کر باغیوں کے خلاف لڑائی لڑتے رہے ہیں۔
لبنان کے شدت پسند گروپ حزب اللہ کا کہنا ہے کہ رواں ہفتے شام میں ہونے والے انتخابات بشار الاسد کی کامیابی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ملک میں خونزیر تنازع کا کوئی بھی سیاسی حل اسد سے" شروع ہوتا اور ان پر ہی ختم ہوتا ہے۔"
حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ کا کہنا تھا کہ بحران کے سیاسی حل کی خواہش رکھنے والے اسد سے مذاکرات کریں گے۔ ان کے بقول شام کے صدر کا استعفیٰ خانہ جنگی کے خاتمے کے قرارداد کے لیے اب کسی طور بھی پیشگی شرط نہیں رہی۔
شام میں تین سال سے جاری خانہ جنگی کے دوران حسن نصراللہ، اسد حکومت کے پرزور حامی رہے ہیں اور ان کے جنگجو شام کی فورسز کے ساتھ مل کر باغیوں کے خلاف لڑائی لڑتے رہے ہیں۔
جمعہ کو واشنگٹن میں محکمہ خارجہ کی ترجمان میری ہارف نے حزب اللہ، ایران اور روس سمیت تمام ایسی قوتوں، جن کا شام کی حکومت پر اثر و رسوخ ہے، پر زور دیا تھا کہ وہ بحران کے سفارتی حل کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالیں۔
"یہ پالیسی میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں ہے لیکن یہ اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ شام کی حکومت پر بیرونی عناصر کا اثرورسوخ ہے اور اسے استعمال کیا جانا چاہیے۔"
گزشتہ منگل کو بشارالاسد صدارتی انتخابات میں بھارتی اکثریت حاصل کر کے تیسری مرتبہ سات سال کے لیے ملک کے صدر منتخب ہوئے تھے۔
شام میں حکام کے مطابق تقریباً ایک کروڑ سے زائد افراد نے اسد کو ووٹ دیا جس کا مطلب ہے کہ انھوں نے 89 فیصد ووٹ حاصل کیے۔
یہ انتخاب صرف حکومت کی عملداری والے علاقوں میں منعقد ہوا تھا۔
شام میں مارچ 2011ء سے بشار الاسد کے خلاف شروع ہونے والی پرامن احتجاجی تحریک، سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن کی وجہ سے پرتشدد شکل اختیار کر گئی۔
ملک میں جاری خانہ جنگی سے اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد لوگ ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ 25 لاکھ افراد دیگر ملکوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ کا کہنا تھا کہ بحران کے سیاسی حل کی خواہش رکھنے والے اسد سے مذاکرات کریں گے۔ ان کے بقول شام کے صدر کا استعفیٰ خانہ جنگی کے خاتمے کے قرارداد کے لیے اب کسی طور بھی پیشگی شرط نہیں رہی۔
شام میں تین سال سے جاری خانہ جنگی کے دوران حسن نصراللہ، اسد حکومت کے پرزور حامی رہے ہیں اور ان کے جنگجو شام کی فورسز کے ساتھ مل کر باغیوں کے خلاف لڑائی لڑتے رہے ہیں۔
جمعہ کو واشنگٹن میں محکمہ خارجہ کی ترجمان میری ہارف نے حزب اللہ، ایران اور روس سمیت تمام ایسی قوتوں، جن کا شام کی حکومت پر اثر و رسوخ ہے، پر زور دیا تھا کہ وہ بحران کے سفارتی حل کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالیں۔
"یہ پالیسی میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں ہے لیکن یہ اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ شام کی حکومت پر بیرونی عناصر کا اثرورسوخ ہے اور اسے استعمال کیا جانا چاہیے۔"
گزشتہ منگل کو بشارالاسد صدارتی انتخابات میں بھارتی اکثریت حاصل کر کے تیسری مرتبہ سات سال کے لیے ملک کے صدر منتخب ہوئے تھے۔
شام میں حکام کے مطابق تقریباً ایک کروڑ سے زائد افراد نے اسد کو ووٹ دیا جس کا مطلب ہے کہ انھوں نے 89 فیصد ووٹ حاصل کیے۔
یہ انتخاب صرف حکومت کی عملداری والے علاقوں میں منعقد ہوا تھا۔
شام میں مارچ 2011ء سے بشار الاسد کے خلاف شروع ہونے والی پرامن احتجاجی تحریک، سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن کی وجہ سے پرتشدد شکل اختیار کر گئی۔
ملک میں جاری خانہ جنگی سے اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد لوگ ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ 25 لاکھ افراد دیگر ملکوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔