ہانگ کانگ میں ہزاروں مظاہرین نے سڑکوں کو خالی کرانے سے متعلق حکومت کا حکم ماننے سے انکار کر دیا ہے۔
پیر کو جاری ہونے والے ایک بیان میں حکومت نے مظاہرین کو کہا تھا کہ وہ مظاہروں کے مقام کو پرامن طور پر خالی کر دیں تاکہ تاکہ ٹرانسپورٹ کا نظام بحال ہو سکے۔
بیان میں کہا گیا کہ بظاہر مظاہروں میں امن آنے کے بعد پولیس کو واپس بلایا جا رہا ہے۔
لیکن اس کے باوجود مظاہرین کی بھاری تعداد سڑکوں پر موجود رہی۔
ہانگ کانگ کی پولیس نے اختتام ہفتہ شہر کے مرکز سے ہزاروں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ان پر آنسو گیس کا استعمال کیا اور لاٹھی چارج بھی کی۔ ان جھڑپوں میں کم از کم 26 افراد زخمی بھی ہوئے۔
مظاہرین ملک کی ایک بندر گاہ کی دوسری طرف ایک مصروف تجارتی مرکز کے ساتھ ساتھ ہانگ کانگ میں پھیل گے جس کی وجہ سے حکام کے لیے ان پر قابو پانا مشکل ہو گیا۔
ہزاروں مظاہرین ہانگ کانگ کی مرکزی سرکاری عمارتوں کے ارد گرد جمع ہو گئے جبکہ انھوں نے طلبا اور بعض رہنماؤں کے اُن پیفامات کو بھی نظر انداز کر دیا جن میں ان سے کہا گیا تھا کہ وہ ان عمارتوں سے پیچھے ہٹ جائیں کیونکہ انھیں خدشہ ہے کہ پولیس ان پر ربڑ کی گولیاں فائر کرے گی۔
مظاہرے ایک بڑی سول نافرمانی کی تحریک کا حصہ ہیں اور ان میں شامل افراد کا مطالبہ ہے کہ بیجنگ یہاں سیاسی مداخلت کم کرے۔
ان مظاہروں کا آغاز ہانگ کانگ کے انتظامی سربراہ لی آنگ چن کے اس بیان کے بعد آیا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ انتخابی اصلاحات کے نئے پروگرام کے لیے مذاکرات شروع کیے جائیں گے۔ تاہم انھوں نے اس حوالے سے مذاکرات کے لیے وقت کے تعین سے متعلق کچھ نہیں بتایا تھا۔
چین کی طرف سے جاری کیے گئے ضابطے کے تحت 2017ء میں ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے والے تمام امیدواروں کی، چین نواز کمیٹی، سے منظوری ضروری ہے جس پر مظاہرین نے انتہائی سخت ردعمل کا اظہار کیا۔
چین نے کہا ہے کہ ہانگ کانگ کے شہری 2017ء میں اپنے نئے رہنما کا انتخاب کر سکتے ہیں لیکن انہیں صرف ان تین امیدواروں میں سے صرف ایک کا چناؤ کرنا ہو گا جس کی منظوری بیجنگ دے گا۔
دوسری طرف مظاہرین حکام سے تمام احتجاج کرنے والوں کی رہائی اور ایک ایسے انتخابی عمل کا مطالبہ کر رہے ہیں جس میں سب حصہ لینے کے اہل ہوں ۔