پاکستان کی شوبزنس انڈسٹری کروٹ لے رہی ہے۔ فلم ہو یا ٹی وی یہاں 25 سے 30 سالوں کے دوران ہارر ڈرامے یا فلمیں بنانے کا رجحان کبھی عام نہیں ہوا. رہی بات اینی میٹیڈ فلموں کی تو یہ تو جدید دور کی ایجاد ہے لیکن جب سے سنیما کی بحالی پر ازسر نو کام شروع ہوا ہے، تب سے نئے نئے موضوعات اور تجربات کئے جارہے ہیں۔
حالیہ رجحان میں ٹی وی اور سنیما میں دو نئے رجحانات دیکھے جا رہے ہیں ۔ اینی میٹیڈ فلمیں بنانا جیسے ’تین بہادر‘ یا ’ ٹک ٹاک‘ وغیرہ اور ہارر فلم ’پری‘ اور اب ایک ڈرامہ ’بیلا پور کی ڈائن‘
’پری‘ حالیہ برسوں میں بننے والی پاکستان کی پہلی ہارر فلم ہے جس کی ریلیز کے لئے رواں ماہ کا دوسرا جمعہ طے کیا گیا جبکہ اسی ماہ کی 15 تاریخ سے ’ہم ‘ٹی وی‘ سے ایک نیا ہارر ڈرامہ ’بیلاپور کی ڈائن‘ بھی شروع ہو رہا ہے۔
ایک سینئر ٹی وی پروڈیوسر عدیل، جو ان دنوں نجی ٹی وی چینل’جیو‘سے وابستہ ہیں ، انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا:
’ ہمارے یہاں بننے والے ڈرامے عام طور پر ایک ہی ڈگر اور ملتی جلتی کہانیوں پر بن رہے ہیں۔ ہر ڈرامے میں رشتوں کی روایتی اونچ نیچ دکھائی جاتی ہے۔ لیکن ایسا ہمیشہ نہیں چل سکتا۔ لہذا ہارر ڈراموں اور فلموں کا رجحان بڑھ رہا ہے۔‘
’بیلاپور کی ڈائن ‘ ایسی ہی ڈرامہ سیریل ہے جس میں رومانس تو ہے لیکن ڈر، خوف اور سسپنس کی آمیزیش کے ساتھ۔
سیریل میں ہنستی کھیلتی عام سی لڑکی کو ’چڑیل‘ یا ’روح‘ میں تبدیل ہوتے دکھایا گیا ہے۔
سیفی حسن کی ڈائریکشن میں بننے والی ’بیلا پور کی ڈائن‘ میں 80 کے عشرے کی منظرکشی کی گئی ہے۔ سیریل میں ’چڑیل‘ کا کردار عمار خان ادا کر رہی ہیں۔
عمارخان نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ’بیلاپور کی ڈائن‘ مختلف اور تجرباتی قسم کا سیریل ہے۔ جب میں نے سیفی حسن سے ہنستے ہوئے یہ پوچھا کہ وہ مجھے ہی کیوں چڑیل کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں میری آنکھوں میں شیطانی سی چمک نظر آتی ہے جو اس کریکٹرکے لئے بہت موزوں ہے۔‘
عام طور پر ڈراؤنی فلموں اور ٹی وی سیریلز کے گیٹ اپ میں لمبے لمبے دانت اور ان ٹپکتا خون دکھایا جاتا ہے لیکن ’بیلا پورکی ڈائن ‘ کے’لکس‘ اور میک اپ کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ دیکھنے والوں میں خوف کا احساس پیدا کرنے کے لئے روایتی خون اور لمبے لمبے دانت یا ناخن ضروری نہیں۔
ڈرامے کی کاسٹ میں عمار خان کے علاوہ شکیل، سارہ خان، عرفان کھوسٹ اور اسامہ طاہر بھی شامل ہیں۔ عدنان صدیقی لیڈ رول میں شامل ہیں۔
پاکستان فلم انڈسٹری کا گویا یہ دوسرا جنم ہے ۔ اس ’جنم‘ میں ہارر فلمیں اور ڈرامے یا تو ابھی ’پالنے‘ میں ہیں یا پھر ’پاؤں پاؤں‘ چل رہے ہیں۔
’پہلے جنم‘ میں ہارر اور سائنس فکشن کی آمیزیش لئے ’سرکٹا انسان‘ جیسی فلمیں بن چکی ہیں لیکن فلم انڈسٹری کے دو جنم کے درمیان اتنا بڑ ا وقفہ آ گیا ہے کہ نئی نسل کو پرانی فلموں کے نام تک یاد نہیں ۔