یمن کے حکومت مخالف شیعہ باغیوں نے دارالحکومت صنعا کے بعد ملک کے تیسرے بڑے شہر تعزپر بھی قبضہ کرلیا ہے۔
صنعا اور یمن کے دوسرے بڑے شہر عدن کو ملانے والی مرکزی شاہراہ پر واقع تعز کے رہائشیوں کے مطابق حوثی باغیوں نے ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب شہر کے فوجی ہوائی اڈے پر بآسانی قبضہ کرلیا۔
عینی شاہدین نے غیر ملکی ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ انہوں نے حوثیوں کے زیرِ قبضہ وسطی علاقوں سے درجنوں ٹینک اور فوجی گاڑیاں تعز کی جانب جاتی دیکھی ہیں۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ یمنی فوج نے باغیوں کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں کی اور وہ ہوائی اڈے پر بآسانی قبضے کے بعد تعز کے دیگر علاقوں پر اپنا کنٹرول مستحکم کر رہے ہیں۔
باغیوں کی پیش قدمی کے خلاف تعز کے شہریوں نے کئی مقامات پر احتجاج کیا ہے جنہیں، عینی شاہدین کے مطابق، جنگجووں نے ہوائی فائرنگ کرکے منتشر کردیا۔
جمعے کو صنعا کی شیعہ مساجد پر خودکش حملوں اور ان میں 140 سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد حوثی باغیوں نے "سنی شدت پسندوں" کی سرکوبی کے لیے پیش قدمی کا اعلان کیا تھا۔
حوثی باغی گزشتہ سال ستمبر سے دارالحکومت کے اہم مقامات پر قابض ہیں جنہوں نے یمن کے شیعہ زیدی قبائل کو حکومت میں زیادہ اختیارات دینے کے مطالبے سے اپنی تحریک کا آغاز کیا تھا۔
گزشتہ ماہ کے اوائل میں باغیوں نے پارلیمان کو تحلیل کرنے کے بعد حکومت کا انتظام بھی سنبھال لیا تھا جس کے خلاف یمن کے کئی علاقوں میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔
یمن کے صدر عبدالرب منصور ہادی گزشتہ ماہ باغیوں کی نظر بندی سے فرار ہونے کے بعد عدن پہنچ گئے تھے جسے انہوں نے اپنا عارضی دارالحکومت قرار دے دیا ہے۔
صدر ہادی نے صنعا کو حوثی باغیوں سے خالی کرانے کا عزم ظاہر کیا ہے اور وہ عدن میں قائم اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
لیکن ان کی حکومت کے وزیرِاعظم اور کابینہ کے کئی سینئر ارکان تاحال حوثی باغیوں کے زیرِ نگرانی صنعا میں نظر بند ہیں۔
خلیج کی تمام عرب ریاستیں اور امریکہ سمیت بیشتر مغربی ملک صدر ہادی کو یمن کا قانونی حکمران قرار دیتے ہیں اور دارالحکومت پر باغیوں کے قبضے کی مذمت کرچکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ بھی ہادی کو یمن کا صدر تسلیم کرتی ہے۔
یمن کی پڑوسی عرب ریاستوں خصوصاً سعودی عرب کو حوثی باغیوں کی پیش قدمی پر سخت تشویش ہے اور اس نے ایران پر باغیوں کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا ہے۔
اتوار کو ایران کے نائب وزیرِ خارجہ حسین عامر عبدالحیان نے اپنے ایک بیان میں یمن میں جاری سیاسی بحران کے مذاکرات کے ذریعے حل پر زور دیا۔
لیکن انہوں نے باغیوں کے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یمن کو مزید خون خرابے سے بچانے کے لیے صدر ہادی کو اقتدار چھوڑ دینا چاہیے۔
حوثی باغی یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح کے اتحادی ہیں جنہیں 2011ء میں عوامی احتجاج کے بعد اقتدار چھوڑنا پڑا تھا۔
لیکن اقتدار سے محرومی کے باوجود علی عبداللہ صالح کو یمنی فوج کے قابلِ ذکر دستوں کی حمایت حاصل ہے جن کے ذریعے وہ دوبارہ اقتدار میں آنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
جمعرات کو عدن کے ہوائی اڈے پر قبضے کے لیے سابق صدر صالح اور صدر ہادی کے حامی فوجی دستوں کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی تھیں جن میں دونوں طرف کے لوگ مارے گئے تھے۔