اسرائیل اور حماس کے درمیان 7 اکتوبر سے شروع ہونے والی لڑائی میں جہاں اب تک دونوں جانب پانچ ہزار سے زیادہ افراد ہلاک اور مزید 12 ہزار کے لگ بھگ زخمی اور دس لاکھ سے زیادہ بے گھر ہو چکے ہیں، وہاں عالمی ادارے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ دونوں فریق جنگ سے متعلق بین الاقوامی قوانین کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں بھی کر رہے ہیں۔
اگرچہ یہ کہا جاتا ہے کہ جنگ میں سب جائز ہے، لیکن فی الحقیقت ایسا نہیں ہے۔ دو عالمیگر جنگوں میں کروڑوں انسانی جانوں کے ضیاع اور لا محدود نقصانات کے بعد 1949 میں اقوام عالم نے جنگ سے متعلق ضابطے اور قواعد مقرر کیے تھےجن کا مقصد معصوم لوگوں کو جنگ کا ایندھن بننے سے بچانا تھا۔
یہ قواعد جنیوا کنونشنز کے نام سے جانے جاتے ہیں اور دنیا کا تقربیاً ہر ملک ان سے اتفاق کرتا ہے۔
جنگ سے متعلق بین الاقوامی قوانین کیا ہیں؟
جنگوں میں معصوم شہریوں، ان کی املاک اور جنگی قیدیوں سے سلوک کے حوالے سے 1949 میں جنیوا میں چار کنونشنز کی منظوری دی گئی ہے جن میں یہ کہا گیا ہے کہ جنگ کے دوران شہریوں، زخمیوں اور قیدیوں کے ساتھ انسانیت پر مبنی برتاؤ کیا جانا چاہیے۔
اس کانفرنس میں قتل، تشدد، اذیت رسانی، یرغمال بنانےاور ذلت آمیز سلوک پر پابندی لگانے پر اتفاق کیا گیا اور جنگ میں ملوث فریقوں سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ وہ حریف فریق کے زخمیوں اور بیماروں کو علاج معالجہ مہیا کریں۔
جنیوا کنونشنز کی دستاویز کا اطلاق جنگ اور تنازعات میں شریک تمام فریقوں پر ہوتا ہے، چاہے وہ کوئی ملک ہو یا کوئی عسکری گروپ، جیسا کہ اسرائیل اور حماس کا معاملہ ہے جس میں ایک فریق کی حیثیت باقاعدہ ریاست کی نہیں ہے۔
جنیوا کنو نشنز کے علاوہ ایک بین الاقوامی فوجداری عدالت بھی ہے جو جنگی جرائم سے متعلق معاملات کا قانونی پہلوؤں سے جائزہ لے کر جرائم کے مرتکب افراد کو سزائیں سناتی ہے۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت کے دائرہ کار میں عام شہریوں، شہری آبادیوں یا ا نسانی ہمدردی کے لیے کام کرنے والے افراد پر جان بوجھ کر حملہ کرنا، جنگی اعتبار سے ضروری نہ سمجھی جانے والی املاک کو تباہ کرنا ، جنسی تشدد کا نشانہ بنانا اور غیر قانونی طور پر ملک سے بے دخل کرنا وغیرہ جیسے معاملات شامل ہیں۔
ان کے علاوہ جنگ سے متعلق کچھ اور بین الاقوامی معاہدے بھی ہیں جو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے استعمال سےروکتے ہیں، جن میں کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار بھی شامل ہیں۔
مگر قابل توجہ بات یہ ہے کہ بہت سے ملک بین الاقوامی فوجداری عدالت اور ہتھیاروں سے متعلق معاہدوں کو تسلیم نہیں کرتے۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پاس جنگی جرائم میں ملوث افراد پر مقدمہ چلانے اور سزائیں دینے کا اختیار تو ہے لیکن اس کے پاس اپنے احکامات پر عمل درآمد کرانے کی طاقت محض اخلاقی ہے۔ چنانچہ جو ملک بین الاقوامی فوجداری عدالت کے دائرہ اختیار کو تسلیم نہیں کرتے، وہ اس کے حکم کی تعمیل بھی نہیں کرتے۔
کیا حماس نے جنگی جرائم کیے ہیں؟
حماس نے سات اکتوبر کو اسرائیلی قصبوں اور شہروں پر ہزاروں راکٹ داغے اور اس کے سینکڑوں مسلح افراد سرحد عبور کر کے اسرائیل میں داخل ہوئے جہاں انہوں نے عام شہریوں پر حملے کیے اور ان کی املاک کو تباہ کیا۔
ان حملوں میں 1400 کے لگ بھگ افراد ہلاک ہوئے جن میں اکثریت بچوں ، عورتوں اور معمر افراد سمیت عام شہریوں کی تھی۔
عسکریت پسند جاتے ہوئے لگ بھگ 200 افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ بھی لے گئے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ واقعات واضح طور پر جنیوا کنونشنز کی خلاف ورزی اور جنگی جرائم کے دائرے میں آتے ہیں۔
جنیوا کنونشنز میں کہا گیا ہے کہ شہریوں کو کبھی بھی یرغمال نہیں بنایا جانا چاہیے۔ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو اسے جنگی جرم قرار دیا جا سکتا ہے۔
کیا اسرائیل نے جنگی جرائم کیے ہیں؟
غزہ کی انتظامیہ کے مطابق اسرائیلی فضائی حملوں میں اب تک 3700 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد بچوں اور عورتوں کی ہے۔جب کہ زخمیوں کی تعداد 12 ہزار سے زیادہ ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ اسرائیل حماس کی بجائے غزہ کے فلسطینیوں کو اجتماعی سزا دے رہا ہے۔
جنیوا میں قائم بین الاقوامی کمیٹی آف ریڈکراس نے کہا ہے کہ لاکھوں افراد کو اپنے گھر بار چھوڑنے کا حکم دینا اور مکمل ناکہ بندی کے ساتھ لوگوں کو خوراک، پانی اور بجلی کے حصول سے روکنا بین الاقوامی انسانی قانون سے مطابقت نہیں رکھتا۔
اسرائیلی فورسز پر یہ الزام بھی ہے کہ اس نے غزہ پر بمباری کے دوران سفید فاسفورس کا استعمال کیا ہے جس کی ممانعت ہے، اسرائیلی حکام اس الزام سے انکار کرتے ہیں۔
اسرائیلی فوج کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ بین الاقوامی قوانین پر عمل کر رہی ہے اور صرف جائز عسکری اہداف کو نشانہ بنا رہی ہے جس کا مقصد عسکریت پسندوں کے محفوظ ٹھکانے ختم کرنا اور شدت پسندوں کا مکمل قلع قمع کرنا ہے جو شہری آبادی کو ڈھال بنا کر اپنی کارروائیاں کرتے ہیں۔
کیا جنگی جرائم کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جاسکتا ہے؟
اقوام متحدہ کے کمیشن آف انکواری کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل حماس کی موجودہ لڑائی میں تمام فریقوں کے جنگی جرائم کے شواہد اکھٹے کر کے انہیں محفوظ کر رہا ہے۔ جنہیں بین الاقوامی فوجداری عدالت کی طرف سے فلسطینی علاقوں کی صورت حال پر ہونے والی تحقیقات میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
نیدر لینڈز میں قائم بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پاس جنگی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے حکام کے خلاف مقدمات چلائے اور متاثرین کو معاوضے دلانے کا اختیار ہے ۔
مگر سوال حکم پر عمل درآمد کا ہے کیونکہ امریکہ، روس اور اسرائیل سمیت بہت سے ممالک بین الاقوامی فوجداری عدالت کے دائرہ اختیار کو تسلیم نہیں کرتے۔ جب کہ عالمی عدالت کے پاس اپنے احکامات پر عمل کرانے کے لیے نہ تو پولیس ہے اور نہ ہی کوئی اور طاقت۔
جنگی جرائم روکنے کے متبادل راستے کیا ہیں؟
بین الاقوامی فوجداری عدالت کے علاوہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس اور یورپی کورٹ آف ہیومن رائٹس ، مبینہ خلاف ورزیوں سے متعلق مقدمات کی سماعت کر سکتی ہیں۔ اسرائیل کی عدالتیں بھی حماس کے خلاف معاوضے کے دعوؤں پر حکم جاری کر سکتی ہیں۔ اسی طرح امریکہ کے قوانین امریکی عدالتوں کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ بیرونی ملکوں میں جنگ یا تشدد سے متاثر ہونے والے امریکی شہریوں کے مقدمے سن سکیں اور مجرموں کو سزائیں دے سکیں۔
عدالتوں کے علاوہ اقوام متحدہ اور ممالک اپنے قوانین کے تحت جرائم کے مرتکب ممالک کے خلاف پابندیاں لگا سکتے ہیں، جیسا کہ یوکرین پر روسی حملے کے جواب میں روس پر کئی جانب سے پابندیاں نافذ کی گئیں ہیں۔
تاہم اسرائیل حماس جنگ کا معاملہ مختلف ہے اور جنگی جرائم کے ارتکاب کا ڈیٹا اکھٹا کرنے کے ساتھ ساتھ اس سوال پر بھی اختلافات ہیں کہ ان واقعات کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔
(اس تحریر کے لیے کچھ معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس اور رائٹرز اور انسائیکلو پیڈا بری ٹینیکا سے لی گئی ہیں)